امریکہ کی ریاست ٹینیسی میں حسین اندریاس پشتو اور دری زبانوں میں اپنے گھر سے یو ٹیوب اور فیس بک پر روزانہ مسیحی برادری کے لیے چرچ سروس کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں۔ انہوں نے وی او اے کو بتا یا کہ ٹینیسی میں ایک افغان چرچ ہے، جس کے پندرہ ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کے کئی دوسرے شہروں میں بھی افغان چرچ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد بہت سے افغان مسیحی امریکہ آکر آباد ہوگئے ہیں۔
اندریاس نے1980 کی دہائی میں افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا ، پھر اسی دوران انہوں نے مسیحی مذہب قبول کیا ۔ مگر بعد میں وہ طالبان کے مظالم سے تنگ آکر خطے کے دوسرے ملکوں میں بھٹکتے رہے اور نو سال کی در بدری کے بعد انہیں امریکی ریاست ورجینیا کے ایک چرچ میں ملازمت مل گئی اور وہ یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ اب وہ یہاں سے سوشل میڈیا کے ذریعے افغان مسیحی برادری کے لیے روزانہ ایک سروس چلاتے ہیں۔
پچھلے ماہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن یا یوایس سی آئی آر ایف نے امریکی محکمہ خارجہ سے کہا کہ وہ طالبان کی موجودہ حکومت کے تحت افغانستان کو ایک ایسا خصوصی ملک قرار دیں جو قابل ِتشویش ہے۔ اس نامزدگی کے نتیجے میں طالبان حکام پر مزید اقتصادی اور سفری پابندیاں عائد کی جاسکیں گی۔
اس کمیشن کے مطابق ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ طالبان مسلسل مذہبی اقلیتوں کو تنگ کر رہے ہیں اور اپنے اسلامی قوانین کی انتہا پسندانہ تشریح کرتے ہوئے ، انہیں سزائیں دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مختلف تحمینوں کے مطابق افغانستان میں تقریباً 85 فی صدسنّی مسلمان ہیں، 12 فی صد شیعہ اور ان کے علاوہ مختصر تعداد میں سکھ اور ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتیں ہیں۔
امریکہ میں قائم ایک غیر سرکاری ادارے ، انٹرنیشنل کرسچین کنسرن یا آئی سی سی کا کہنا ہےکہ افغانستان میں خاص طور مسیحی برادری سخت خطرے میں ہے۔ اس ادارے کا افغانستان میں مسیحی خاندانوں سے رابطہ ہے ، جو طالبان سے چھپ کر زندگی گذار رہے ہیں۔آئی سی سی کی مشرق وسطیٰ پروگرام منیجر کلائر ایوانز کا کہنا ہے کہ ان میں بہت سوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ہزاروں افراد کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن نے آئی سی سی کے حوالے سے بتایا ہے کہ دس سے بارہ ہزار مسیحیوں کو اس مسلم ملک میں اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ایوانز کا کہنا ہے افغانستان میں مسیحی خود کو سخت خطرے میں محسوس کر تے ہیں ، کیونکہ طالبان انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ یوایس سی آئی آر ایف نے امریکی حکومت سے کہا ہے کہ طالبان کے زیر عتاب آنے والی اقلیتی برادری کی یہاں قانونی طور پر آباد کاری کا بندوبست کیا جائے۔
آئی سی سی کی پروگرام منیجرایوانز کا کہنا ہے کہ خاص طور پر ایسے لوگوں کا انخلا ایک مشکل کام ہے جو طالبان کے خوف سے چھپے ہوئے ہیں۔ کیونکہ طالبان کسی قسم کے مروجہ قانون یا ضابطوں پر عمل نہیں کرتےِ۔ تاہم ہمیں امید ہے کہ ہم اس سے یہ سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر اگر اس طرح کے حالات پیدا ہوں تو ان سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے اور مسیحی برادری کی کس طرح مدد کی جا سکتی ہے۔
اگرچہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری کو ممکن بنا رہے ہیں تاہم بین الاقوامی برادری کی اس بارے میں تشویش کم نہیں ہوئی ہے۔