افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں ایک اہم ہوائی اڈے کے قریب منگل کی شب مسلح طالبان کے حملے میں عام شہریوں سمیت افغان سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم ہلاک و زخمی ہونے والوں کی درست تعداد سے متعلق مصدقہ معلومات نہیں کیوں کہ بدھ کی شام تک سیکورٹی فورسز اور طالبان حملہ آوروں کے درمیان لڑائی جاری رہی۔
اطلاعات کے مطابق افغان سکیورٹی فورس کی وردیوں میں ملبوس کم از کم 10 طالبان خود کش حملہ آوروں نے منگل کی رات قندھار کے ہوائی اڈے پر حملہ کیا، جس کے قریب ہی نیٹو افواج کے اہلکار بھی تعینات ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے فوجی اڈے کے اندر داخل ہو کر ملکی اور غیر ملکی فوجی اہلکاروں پر حملہ کیا۔
طالبان کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس حملے میں 150 فوجی ہلاک ہو گئے ہیں، لیکن واضح رہے کہ عموماً طالبان ہلاک و زخمی ہونے والوں کے تعدا د کو بڑھا چڑھا کر بیان کر تے ہیں۔
نیٹو کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بین الاقوامی افواج کے اہلکاروں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائیں۔
افغان فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ باغیوں نے اُس طرف سے حملہ کیا جہاں رہاشی عمارتیں واقع ہیں۔
ایک علاقائی کور کمانڈر جنرل داؤد شاہ وفادار کے مطابق منگل کی شب جب وہ اپنے گھر جا رہے تھے تو اُسی دوران یہ حملہ ہوا۔ جنرل داؤد اس حملے میں محفوظ رہے تاہم اُن کا ایک محافظ ہلاک جب کہ ایک زخمی ہو گیا۔
جنرل داؤد نے بتایا کہ حملہ آوروں کا محاصرہ جاری ہے اور سکیورٹی فورسز نے نو حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا ہے جب کہ پانچ دوسرے ابھی تک عمارت کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حملے میں 18 افراد ہلاک جبکہ 11 زخمی ہوئے ہیں جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں۔
تاہم جنرل وفادار نے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی اور یہ بھی واضح نہیں کیا کہ ہلاک ہونے والوں میں حملہ وار بھی شامل ہیں یا نہیں۔
قندھار کے ہوائی اڈے پر حملہ ایسے وقت ہوا جب کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان پہنچنا تھا۔ تاہم افغان صدر اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق بدھ کی صبح اسلام آباد پہنچے۔
دوسری طرف افغان عہدیداروں نے منگل کو کہا کہ مغربی شہر ہرات میں طالبان متحارب دھڑوں کے درمیاں لڑائی میں درجنوں افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہو گئے، یہ علاقہ طالبان کے منحرف دھڑے کا گڑ ھ ہے۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ مرکزی دھارے میں شامل طالبان باغی منحرف گروپ کے خلاف ایک بڑا حملے کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر مںصور کو امیر ماننے سے انکاری ہیں۔
اس سال جولائی میں ملا عمر کی موت کی تصدیق ہونے کے بعد ملا منصور نے طالبان عسکریت پسندوں کی قیادت سنبھالی تھی۔
طالبان عسکریت پسندوں کے چند اہم ارکان نے ملا منصور کو امیر ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا الگ دھڑا قائم کریں گے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے قندھار میں حملے اور اس میں ہونے والے جانی نقصان کی شدید مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار افغان حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن پورے خطے کے امن کے لیے انتہائی اہم ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ دشمن ہے۔ اُنھوں نے خطے اور دنیا سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستانی وزیراعظم نے خطے میں امن و استحکام کی بحالی کے لیے افغانستان کو ہر ممکن تعاون کی فراہمی کی پیشکش کی۔