طالبان نے منگل کی صبح قندھار انٹرنیشل ایئرپورٹ پر دھاو بول کر درجنوں لوگوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں اب 4 شہری ہلاک اور 20 زخمی ہوچکے ہیں۔
قندھار میں وائس آف امریکہ کے نمائندے کا کہنا ہے کہ طالبان اور افغان اور بین الاقوامی فورسز کے درمیان کئی گنھٹوں سے لڑائی جاری ہے۔
قندھار میں فوجی ترجمان، محمد محسن سلطانی نے فرانسسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حملہ آور طالبان کی اصل تعداد کا اندازہ نہیں ہو رہا؛ اور افغان فوجیوں کا ان سے فائرنگ کا زبردست تبادلہ جاری ہے۔
ایئرپورٹ کی حدود میں افغان قومی فوج کے 250 ویں کور کے علاوہ 404 افغان نیشنل پولیس ہیڈکوارٹرز اور ملک کا سب سے بڑا بین الاقوامی فوجی اڈہ بھی موجود ہے۔
اعلیٰ افغان سیکورٹی حکام کے اہل خانہ اس جگہ ایک دائرے کی شکل میں رہائش پزیر تھےجن کے بچوں کے اسکول بھی اسی جگہ پر ہیں جن میں فوجی حکام کے بچے بھی زیر تعلیم ہیں۔
چار حملہ آوروں نے ایک افغان فوجی افسر کے اہل خانہ کو یرغمال بنایا لیا ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جبکہ باقی پانچ حملہ آوروں نے اسکول میں پوزیشن سنبھال رکھی ہے۔
افغان نیشنل آرمی کے 205 انٹیل کور کے کمانڈر، میجر جنرل داؤد شاہ وفادار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان خصوصی فورسز مغویوں کی رہائی کے لے اقدامات کر رہی ہیں۔
جنرل وفادار کے مطابق، حملہ ہوا تو وہ آفس سے گھر جارہے تھے، جب فائرنگ کے نتجے میں ان کا ایک باڈی گارڈ ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا۔
اس انتہائی اہم فوجی اڈے میں گزشتہ 14 برسوں میں پہلی بار باغی داخل ہونے کے قابل ہوئے ہیں۔
طالبان نے وائس آف امریکہ اور دیگر میڈیا نمائندوں کو بھیجے گئے ٹیکسٹ پیغام میں واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ شہادت کی خواہش کے ساتھ بھاری اور ہلکے ہتھیاروں سے لیس مجاہدین قندھار ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں اور انھوں نے، بقول ان کے، درانداز فورسز پر حملہ کر دیا ہے، جس کے بعد ان میں شدید لڑائی جاری ہے۔
اس دوران افغان حکام نے منگل کو خبر دی ہے کہ طالبان کے متحارب گروپوں کے درمیان ایران کی سرحد کے قریب مغربی شہر ہرات میں لڑائی کے دوران درجنوں افراد ہلاک اور بہت سے زخمی ہوگئے ۔
جبکہ جنگجووں کے ذرائع کے مطابق شندور ضلع جہاں طالبان قائدین اور جنگجووں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا تھا طالبان گروپ نے قندقیں کھود لیں ہیں ۔اطلاعات کے مطابق باغیوں کے اہم لیڈروں نے نئے سربراہ ملا منصور اختر کی سربراہی کو قبول کرنے سے انکار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی تیاریاں شروع کردی ہے۔
تاہم طالبان نے باہمی لڑائی یا نئے سربراہ کی مخالفت کی ان اطلاعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ اس سال جولائی میں جب سے ملا منصور نے عہدہ سنبھالا ہے مختلف علاقوں میں طالبان کے درمیان باہمی لڑائیوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔
کچھ اہم طالبان ملا عمر کے جانشین کی مخالفت کررہے ہیں اور انھوں نے اس سال نومبر میں اپنا الگ گروپ بنانے کا اعلان کردیا تھا۔