اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ طالبان کے اگست میں ملک پر کنٹرول کے بعد سے اب تک مصدقہ طور پر 100 سے زائد ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ڈپٹی چیف ندا النصحیف نے کہا ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے اقتدار میں آنے کے بعد عام معافی کے اعلان کے باوجود ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اطلاعات کے باعث تشویش میں ہیں۔
انہوں نے منگل کو انسانی حقوق کی کونسل سے خطاب میں کہا کہ "اگست سے نومبر کے درمیان ہمیں ایک سو سے زائد قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں اور سابقہ حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں۔ جن میں سے 72 ہلاکتوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہ مبینہ طور پر طالبان کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔
ندا النصحیف کے بقول کئی واقعات میں مقتولین کی لاشوں کو چوک چوراہوں میں لٹکایا گیا جس سے آبادی کے بڑے حصے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
SEE ALSO: طالبان کو منجمد فنڈ جاری کیے جانے کا فوری امکان نہیں: وائٹ ہاؤسدوسری جانب طالبان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہر بلخی نے سابق انتظامیہ کے اہلکاروں پر مظالم کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان حکومت عام معافی کے اعلان پر قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام معافی کے اعلان کے برخلاف عمل پر کارروائی کی جائے گی اور اس قسم کے واقعات کی مکمل تفتیش کی جائے گی تاہم غیر مصدقہ افواہوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔
ندا النصحیف نے افغانستان کی صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی چیف مشیل بیچلٹ کو منگل کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ طالبان کے مخالف گروہ داعش خراسان کے بہت سے جہادی بھی گزشتہ دنوں میں مارے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مشیل بیچلٹ کے مطابق ننگرہار صوبے میں پچاس سے زیادہ افراد کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق داعش خراسان سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ ان علاقوں میں عوامی طور پر پھانسی، سر قلم کرنے اور عوامی طور پر لاشوں کے دکھانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بدھ کو سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بھی الزام لگایا گیا ہے کہ طالبان نے نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ارکان، سابقہ افغان فوجیوں اور مبینہ طور پر سابق حکومت کے ہمدردوں کو جولائی اور اگست کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا ہے جب کہ اس دوران بعض ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔
ادارے کے مطابق ان ہلاکتوں کے بارے میں تفصیلات موجود نہیں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد افغان شہری، جو ملک کی تقریباً آدھی آبادی بنتی ہے آئندہ سردی کے مہینوں میں خوراک کی شدید قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔