خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ ان واقعات کی ذمہ داری شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔
نو دسمبر کو ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ اور مستقل مفاہمت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد دہشت گردی کے واقعات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ضلع ٹانک میں ہفتے اور اتوار کو نامعلوم عسکریت پسندوں نے انسداد پولیو کی جاری مہم میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے والے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔ فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔
پولیس حکام نے ان واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ جب کہ انسدادِ پولیو مہم میں شامل پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں شمالی وزیرستان کی تحصیل اسپین وام میں اتوار کو عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے حملے کیے۔
ایک حملے میں سیکیورٹی اہلکار محفوظ رہے تاہم دوسرے حملے میں ایک اہلکار ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا ہے۔
اس واقعے سے متعلق سیکیورٹی حکام کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ البتہ شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان کے جاری کردہ بیان میں ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔
ٹی ٹی پی نے ٹانک کے علاوہ شمالی و جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
جنوبی وزیرستان کے صحافی دین محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر نے اتوار کو جاری بیان میں میر علی قصبے میں پولیس وین پر نامعلوم عسکریت پسندوں پر فائرنگ کی تصدیق کی ہے۔ تاہم فائرنگ کے نتیجے میں پولیس اہلکار محفوظ رہے۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ افغانستان سے ملحقہ باجوڑ سے بھی تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ تاہم حکام نے ان واقعات کی تصدیق نہیں کی۔
ٹی ٹی پی نے نو دسمبر کو جاری بیان میں ایک ماہ کے لیے حکومت سے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے مذاکرات کو بھی معطل کر دیا ہے۔
افغان صحافی سمیع یوسف زئی نے بتایا کہ طالبان دراصل حکومت کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر ناراض ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے آخری دور میں تحریکِ طالبان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود اور پاکستان کے ایک سرکاری افسر کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ یہ مذاکرات انتہائی کامیاب تھے۔ افغان طالبان کی حکومت نے قطر کی طرح ٹی ٹی پی کے لیے کابل میں ایک دفتر کھولنے پر بھی کام شروع کیا تھا۔
سمیع یوسف زئی سے قبل خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف اور سابقہ سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے بھی فریقین کے مابین بات چیت اور پسِ پردہ ہم آہنگی بڑھنے کی تصدیق کی تھی۔
حکام اس عزم کا اعادہ کرتے رہے تھے کہ ملک بھر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے رجحان کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔
ٹی ٹی پی کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا کی انسدادِ دہشت گردی پولیس نے بھی مختلف علاقوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی الرٹ جاری کیا تھا۔