|
افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے بدھ کو اپنے اقتدار کے تین سال پورے ہونے کا جشن منایا جس میں جنگ میں استعمال کیے جانے والے دیسی ساختہ بموں اور لڑاکا طیاروں کی نمائش کے ساتھ خصوصی فوجی پریڈ کی گئی۔
طالبان کی مسلح فورسز نے اس پریڈ کے موقع پر سوویت دور کے ٹینکوں اور توپوں اور امریکہ کے سابق فضائی مرکز بگرام سے لائی گئی چیزیں بھی نمائش کے لیے رکھیں۔ اس خصوصی پریڈ کو چینی اور ایرانی سفارت کاروں سمیت سینکڑوں افراد نے دیکھا۔
سابق امریکی فوجی مرکز بگرام میں طالبان کی تقریبات
بلگرام ایئر بیس لگ بھگ 20 سال تک امریکی قیادت میں ہونے والی کارروائیوں میں طالبان کے خلاف استعمال ہوتا رہا ہے۔
اس پریڈ میں ایک اور دلچسپ چیز موٹرسائیکل سواروں کے ایک گروپ کی شرکت تھی جن کے پاس پیلے رنگ کے وہ ڈبے تھے جنہیں پیٹرول ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں طالبان ان ڈبوں کو جنہیں جیری کین کہا جاتا ہے، دیسی ساختہ بم بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
پیریڈ میں امریکی ساختہ بکتر بند گاڑیاں بھی شامل تھیں جن پر طالبان کے سفید اور کالے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ پیریڈ گراؤنڈ پر سے ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں نے بھی پرواز کی۔
یہ تقریب کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر بلگرام بیس پر منعقد ہوئی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں کبھی طالبان جنگجوؤں کو قید رکھا جاتا تھا۔
طالبان فورسز نے 15 اگست 2021 کو افغانستان پر امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔جب کہ طالبان اپنی حکومت کی سالگرہ ایک دن پہلے مناتے ہیں۔
طالبان حکومت کو ابھی تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا
تین سال گزر جانے کے بعد ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی ایک وجہ خواتین کے حقوق پر عائد پابندیاں ہیں۔
لڑکیوں کے خواب دفن ہوئے تین سال گزرے گئے
کابل میں یونیورسٹی کی ایک 20 سالہ سابقہ طالبہ مدینہ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کے خوابوں کو دفن ہوئے بھی تین سال بیت چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر سال یہ جشن ہمارے لیے محرمیوں کے تلخ احساسات لے کر آتا ہے اور ہمیں ان خوابوں کی یاد دلاتا ہے جو ہم نے اپنے مستقبل کے لیے دیکھے تھے۔
اسلام کی حکمرانی، جان و مال اور قومی وقار کی حفاظت کا عزم
وزیر اعظم محمد حسن اخوند نے پروگرام کے مطابق بگرام بیس پر ہونے والی اس تقریب میں آنا تھا۔ لیکن ان کا بیان ان کے چیف آف سٹاف نے پڑھ کر سنایا جس میں مغربی قابضین پر طالبان حکام کی فتح کو سراہا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ طالبان حکومت، اسلامی حکمرانی قائم رکھنے، لوگوں کے جان و مال اور قوم کی عزت کی حفاظت کرنے کی ذمہ دار ہے۔
طالبان حکام کے لیے سیکیورٹی ایک اہم ترجیح رہی ہے اور انہوں نے گزرے تین برسوں کے دوران اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے اور اسلام کی اپنی تشریح پر مبنی سخت قوانین نافذ کیے ہیں۔
داعش طالبان کے لیے بدستور بڑا خطرہ
داعش بدستور طالبان کے لیے ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے اور یوم فتح کے موقع پر کابل اور قندھار میں خدشات کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
اس موقع پر کابل کے غازی اسٹیڈیم میں بھی خصوصی تقریب کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اسٹیڈیم پر سے ہیلی کاپٹروں نے پرواز کی اور کھیلوں کے مقابلے ہوئے۔
ہم آزاد ہیں اور اپنے لوگوں میں ہیں
ایک نوجوان کھلاڑی سمیع اللہ اکمل کا کہنا تھا کہ ایک نوجوان کے طور پر مجھے افغانستان کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے۔ ہم آزاد ہیں اور ہمارے آس پاس ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں۔
سرحدی اور قبائلی امور کے وزیر نوراللہ نوری نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیڈیم میں ہر صوبے سے آئے ہوئے لوگ موجود تھے جو اتحاد کو ظاہر کرتے ہیں۔
زندگی کے بدترین تین سال
چالیس برسوں تک مسلسل جنگوں کے اختتام کے بعد جہاں لوگ اب سکون اور اطمینان کا سائس لے رہے ہیں وہاں بہت سے مسائل اب بھی برقرار ہیں۔ معیشت جمود کا شکار ہے۔ غربت اور خوراک کا بحران ہے۔
ایک 26 سالہ نوجوان نے اپنے نام کا صرف آخری حصہ زلمے بتاتے ہوئے کہا کہ گزرنے والے تین سال ہماری زندگی کے بدترین سال ہیں۔ لوگ بھوکے ہیں۔ نوجوانوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں۔لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
بین الاقوامی غیرسرکاری امدادی گروپس نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں خبردار کیا ہے کہ اس ملک میں دو کروڑ 37 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے، مگر ضرورت اور وسائل کی فراہمی میں فرق مسلسل بڑھ رہا ہے۔
خواتین کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ
افغانستان میں خواتین کو عوامی زندگی سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ ان پر بہت سی ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں، انہیں پارکوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور ان پر ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے طالبان حکومت سے اپنے اس مطالبے کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ خواتین پر سے پابندیاں ہٹا دی جائیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی افغان امور کی ایک ریسرچر فرشتہ عباسی کہتی ہیں کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کی تیسری برسی ملک میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال کی ایک یادہانی اور عمل کرنے کی اپیل بھی ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)