افغان طالبان کا داعش کے مزید جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ

فائل فوٹو

طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی اسپیشل فورسز نے افغانستان کے دارالحکومت کابل اور دیگر علاقوں میں رات گئے چھاپوں کے دوران داعش کے نو جنگجو ہلاک اور دو کو گرفتار کیا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر سیکیورٹی فورسز نے داعش کے ایک اہم ٹھکانے پر جمعے کی رات کو چھاپہ مارا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان میں سرگرم داعش کے خود ساختہ الحاق کرنے والے داعش خراسان کا ذکر بھی کیا۔ ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں عسکریت پسند وں کے علاوہ طالبان سیکیورٹی فورسز کا ایک اہل کار بھی مارا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ چھاپے کابل میں مارے گئے جس کا بعد ازاں دیگر علاقوں تک دائرہ وسیع کیا گیا، جس میں داعش خراسان کے دو اہم اراکین پکڑے گئے۔ تاہم ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

علاوہ ازیں طالبان کی وزارت داخلہ کا ہفتے کو کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے شمال مشرقی صوبے تخارمیں کارروائی کی۔ اس صوبے کی سرحد تاجکستان سے ملتی ہے، وہاں گزشتہ رات انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر داعش خراسان کے ٹھکانے پر کارروائی کی گئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'امریکہ کو افغان طالبان سے بات کرنے کے لیے کسی تیسرے ملک کی ضرورت نہیں'

وزارتِ داخلہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق دشتِ قلعہ ضلع میں کی جانے والی کارروائی میں داعش کے تین اہل کار ہلاک ہوئے، جن میں ایک اہم کمانڈر بھی شامل تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ کابل میں ہلاک ہونے والے داعش کے چھ اہل کاروں کا تعلق شہر میں ہونے والے حالیہ خود کش دھماکوں سے تھا۔ جن میں مدرسے اور مسجد میں ہونے والے حملے شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کابل کی وزیر اکبر مسجد اور کاج ٹیوشن سینٹر سمیت دیگر مقامات پر شہریوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

خیال رہے کہ رواں سال 30 ستمبر کو ٹیوشن سینٹر کے خواتین سیکشن پر ہونے والے دھماکے میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی تھی۔

اس واقعے میں 110 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کابل کی پرندہ مارکیٹ: 'پریشان لوگوں کو یہاں آکر راحت ملتی ہے'

یہ دھماکہ وزیر اکبر مسجد پر ہونے والے دھماکے کے چند دنوں بعد ہوا تھا، جس کے اطراف میں اہم سرکاری دفاتر اور سفارتی مشنز قائم ہیں۔

ان دھماکوں کی اب تک کسی نے بھی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

واضح رہے کہ طالبان نے امریکہ اور اتحادی فورسز کے انخلا کے بعد پچھلے سال اگست میں افغانستان میں اقتدار سنبھالا تھا۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے اکثر علاقوں میں امن قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی داعش کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے سیکیورٹی کے خدشات میں کمی آئی ہے۔

دوسری طرف داعش خراسان نے ملک میں حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جن میں اقلیت اہل تشیع اور ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے طالبان کے دعوؤں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔