امریکی میرین کی جانب سے افغان بچی کے مبینہ اغوا پر طالبان کی تنقید

فائل فوٹو

افغانستان کے حکمران طالبان نے ان رپورٹس پر سخت رد عمل دیا ہے کہ ایک امریکی فوجی دفتر نے پناہ گزینوں کے طور پر امریکہ پہنچنے والے ایک افغان شادی شدہ جوڑے سے ان کا بچہ زبردستی چھین لیا ۔

جوڑے نے گزشتہ ماہ میرین کور اٹارنی ، میجر جوشوا مست اور ان کی اہلیہ پر مبینہ طور پر اپنی بچی کے اغوا کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف ایک وفاقی مقدمہ دائر کیا تھا۔ مست نے الزامات کی تردید کی ہے اور جواز پیش کیا ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ بچی کے قانونی سر پرست ہیں۔

طالبان کی وزارت خارجہ نے اتوار کو کہا کہ وہ اس مقدمے کو پریشان کن سمجھتی ہے جو انسانی وقار کے منافی اور ایک غیر انسانی اقدام ہے اور وہ اس مسئلے کو امریکی حکام کے سامنے سنجیدگی سے اٹھائیں گے کہ اس بچی کو اس کے رشتہ داروں کو واپس کیا جائے ۔

اس بچی کو ، جو اب ساڑھے تین سال کی ہے ، دو سال قبل 2020 میں اس امریکی فوجی حملے کے بعد جس میں اس بچی کے والدین اور پانچ بہن بھائی ہلاک ہو گئے تھے ، ملبے سے زندہ بچایا گیا تھا۔ وہ ایک امریکی فوجی اسپتال میں ایک ماہ گزارنے کے بعد اپنے کزن اور اس کی اہلیہ کے ساتھ رہ رہی تھی جس کے بعد گزشتہ سال افغانستان میں امریکی قیادت کے غیر ملکی فوجیوں کے ہنگامی انخلا کے دوران مست انہیں ہزاروں دوسرے افغان باشندوں کے ساتھ ہوائی ذریعے سے واشنگٹن لے آئے۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق مست نے ، جو ایک حاضر سروس میرین آفیسر ہیں، بچی کو جوڑے سے امریکہ پہنچنے کے پانچ دن بعد لے لیا ۔ جوڑے نے اس کے بعد سے بچی کو نہیں دیکھا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق میرین اور ان کی اہلیہ نے بچی کو ورجینیا کی ایک عدالت کے توسط سے گود لے لیا ہے ۔

افغان عورت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ، جب سے انہوں نے بچی کو لیا ہے ہمارےآنسو رکے نہیں ہیں۔ اس وقت ہم صرف زندہ لاشیں ہیں ۔ ہمارے د ل ٹوٹ چکے ہیں ۔ اس کے بغیر ہمارےپاس مستقبل کے کوئی منصوبے نہیں ہیں ۔ کھانے کا کوئی مزہ نہیں ہے، اور نیند ہمیں چین نہیں دیتی۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی وزارت خارجہ نے افغانوں کے وسیع پیمانے پر انخلا پر اپنی تنقید کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امریکہ اور اس کے اتحادی غیر مناسب طریقے سے باہر لے گئے ہیں۔ اس نے الزام لگایا کہ انخلا کئے گئے بہت سے افغانوں کو اب مختلف کیمپوں میں ایک قانونی تعطل کی حالت میں رکھاجا رہا ہے اور وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں ۔

بیان میں میزبان ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اور قونصلیٹ سروسز کے مطابق افغان مہاجرین کے انسانی اورقانونی حقوق کی حفاظت کریں ۔

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس ویسٹ نے گزشتہ ہفتے وی او اے کو بتایا تھا کہ ان کے وفد نے اس ماہ کے شروع میں قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک تازہ دور کیا تھا اور انہوں نے انسانی حقوق کے مسائل پر واشنگٹن کے خدشات کا اعادہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ، میرا خیال ہے کہ دونوں فریق ان مذاکرات میں ایک تعمیری رویے کے ساتھ شریک ہوئے اور میرا خیال ہے کہ ہم اعتماد کی بحالی کے اپنے راستے پر گامزن ہیں۔