طالبان کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے اپنے دورے کے دوران اپنی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی مستقل نہیں ہے۔
افغان طالبان کے اعلیٰ ترین سفارت کار نے پیر کو اصرار کیا کہ ان کی حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر "مستقل طور پر" پابندی نہیں لگائی، اور یہ بھی کہا کہ خواتین ملک بھر میں مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔
طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پڑوسی ملک پاکستان کے چار روزہ سرکاری دورے میں اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب بھی کیا۔ اسلام آباد میں انہوں نے اپنے چینی اور پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات میں بھی شرکت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘‘ہمارے ملک میں اس وقت ایک کروڑ طلباء پرائمری سطح اور یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 90 لاکھ طالب علم ہر قسم کی تعلیم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں چھٹی جماعت تک کی لڑکیاں شامل ہیں۔ تعلیمی اداروں میں 92000 خواتین سمیت تقریباً تین لاکھ اساتذہ پڑھاتے ہیں‘‘۔
سخت گیر اسلام پسند گروپ طالبان نے اگست 2021 میں اس وقت ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جب امریکہ اور نیٹو نے افغان جنگ میں تقریباً دو دہائیوں کی جنگ کے بعد وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ طالبان نے تب سے اس غریب اورجنگ زدہ ملک کا انتظام چلانے کے لیے اسلامی قانون یا شریعت کا اپنا سخت ورژن نافذ کر رکھا ہے۔
بہت سی افغان خواتین کو ، جن میں اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے والی خواتین بھی شامل ہیں، کام اور عوامی مقامات تک رسائی سے روک دیا گیا ہے۔
طالبان نے خواتین پر سے پابندیاں ہٹانے کے بین الاقوامی مطالبات کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
تاہم پیر کو اپنی تقریر میں، متقی نے اصرار کیا کہ ہزاروں خواتین ڈاکٹرز اور نرسیں صحت کے شعبوں میں بدستور کام کر رہی ہیں۔ لڑکیاں اور خواتین اسلامی مدرسوں میں جا رہی ہیں اور یہاں تک کہ وہاں پڑھاتی بھی ہیں۔
متقی نے کہاکہ، ’’ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ خواتین کی تعلیم غیر اسلامی ہے یا افغانستان میں مستقل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ فرمان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خواتین کی تعلیم کو اگلے نوٹس تک معطل رکھا گیا ہے‘‘۔
انہوں نے گزشتہ سال کالعدم طالبان کے سربراہ، ہبت اللہ اخونزادہ کی طرف سے جاری کیے گئے اس حکم نامے کا حوالہ دیا جس میں لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے اسکولوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا اور بعد ازاں طالبات پر یونیورسٹی کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
متقی نے کوئی وضاحت دیے بغیر کہا کہ ، "ہم نے اس مسئلے پر کافی حد تک پیش رفت کی ہے، اور حکومت افغانستان اس مسئلے کے باقی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوششیں جاری رکھے گی‘‘۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کی ایک ٹیم نے گزشتہ جمعے کو ملک میں آٹھ روزہ مشن کے اختتام کے بعد کہا کہ افغانستان میں صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کی صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔
مشن نے اپنے ابتدائی نتائج میں کہا ہے کہ، ’’ ہمیں افغانستان میں صنفی بنیاد پر ظلم و ستم کے واضح ارتکاب پر گہری تشویش ہے – مشن کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکام نے اقوام متحدہ کی ٹیم کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے پر کام کر رہے ہیں لیکن انہوں نے کوئی واضح ٹائم لائن فراہم نہیں کی۔
(ایاز گل، وی او اے نیوز)