چین کے وزیر دفاع نے پاکستان کی بحریہ کے سربراہ سے پیر کے روز کہا ہے کہ خطے میں استحکام کے تحفظ کی خاطر دونوں ہمسایہ ممالک کو باہمی تعاون مضبوط بناتے ہوئے دو طرفہ تعاون کو بحریہ سمیت دیگر شعبوں تک وسعت دینی چاہئیے۔ دونوں افواج کے درمیان تعلقات برسوں پرانے ہیں۔ ان کی بحری اور فضائی افواج ایک دوسرے کی سرزمین پر دو طرفہ مشقیں کرتی ہیں۔ پاکستان اور اس کی بحیرہ عرب تک رسائی آبنائے ملاکا میں سمندری ناکہ بندی کی صورت میں چین کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
لیکن خطے میں چینی دلچسپی سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے خاص طور پر پڑوسی ملک بھارت میں۔ جب چین نے 2017 میں بحر ہند کے شمال مغربی کنارے پر جبوتی میں اپنا پہلا سمندر پار فوجی اڈہ کھولا تو اس تشویش میں اور اضافہ ہوا ۔
چین کے وزیر دفاع لی شانگ فو نے بیجنگ کے دورے پر آئے ہوئے پاکستان کی بحریہ کے سربراہ امجد خان نیازی سے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے فوجی تعلقات دو طرفہ تعلقات کا کلیدی حصہ ہیں۔
چین کی وزارت قومی دفاع کی ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق لی نے کہا کہ ’’دونوں فوجوں کو تبادلے کے لیے تعاون کو نئے شعبوں تک توسیع دینی چاہیے۔ تعاون کے نئے اعلیٰ نکات کے ساتھ ہر قسم کے خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کی اپنی صلاحیتوں میں لگاتار اضافہ کرنا چاہئے اور مشترکہ طور پر دونوں ملکوں اور خطے کے سلامتی کے مفادات کو برقرار رکھنا چاہیے۔‘‘
چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین ژانگ یوشیا کے اپریل کے اختتام پر دیے گئے ایک بیان کے بعد اجمل خان نیازی نے چین کا دورہ کیا ہے۔اس بیان کے مطابق چینی فوج پاکستان کی فوج کے ساتھ تعاون کو وسعت دینے اور اسے مزید گہرا کرنےکے لیے تیار ہے۔
چین نے ابھی تک اس بارے میں نہیں بتایا ہے کہ آیا اس نے پاکستان کی چینی امداد سے قائم ہونے والی گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر تک فوجی رسائی کی درخواست کی ہے یا نہیں۔
پینٹاگان نے پاکستان کو مستقبل میں پہلے چینی فوجی اڈے کے لیے ممکنہ مقام کے طور پر شناخت کیا تھا اور اس حوالے سے گوادر کو ممکنہ مقام کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ ایسے کسی بھی امکان سے نئی دہلی کی پریشانی کو ہوا ملے گی کہ اس کی پشت پر چینی فوجی اتحاد اور اثاثوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
نئی دہلی نے 2022 میں سری لنکا میں ایک اسٹریٹجک بندرگاہ پر چین کے ایک سروے جہاز کے دورے پر تشویش کا اظہار کیا تھا ۔
2014 میں سری لنکا نے ایک چینی آبدوز اور ایک جنگی جہاز کو کولمبو میں لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی جس پر بھارت نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
(اس رپورٹ کی معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)