خواتین کارکنوں کے ایک چھوٹے گروپ نے اتوار کو افغان دارالحکومت کابل میں ایک احتجاجی ریلی نکالی، جس میں طالبان حکام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک بھر میں لڑکیوں کے لیے اسکول اور یونیورسٹیاں دوبارہ کھولیں۔
طالبان سیکورٹی فورسز کی جانب سے زبردستی منتشر کیے جانے سے قبل مظاہرین نے شہر کے مغربی پل سوختہ محلے تک مارچ کیا
منتظمین نے بتایا کہ مظاہرے میں تقریباً 25 خواتین اور لڑکیوں نے شرکت کی، جنہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور نعرے لگا رہی تھیں ’’آزادی، کام، تعلیم،دانشور ماں مضبوط قوم‘‘ اور ’’تعلیم ہمارا حق ہے‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
لڑکوں کے لیے سیکنڈری اسکول موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ،گزشتہ ہفتے ملک بھر میں دوبارہ کھل گئے، لیکن طالبان نے , بین الاقوامی سطح پرمذمت اور پابندی اٹھانے کے مطالبات کے باوجود لڑکیوں کو کلاسوں میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی۔
طالبان نے 2021 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے نوعمر لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول بند کر دیے تھے۔ پھرگزشتہ دسمبر میں، انھوں نے طالبات کو یونیورسٹیوں میں جانے سے بھی روک دیا، اور یوں افغانستان ایساواحد ملک بن گیا جہاں خواتین تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔
سخت گیر حکمرانوں نے حال ہی میں زیادہ تر خواتین سرکاری ملازمین کے کام پر واپس آنے پر پابندی لگانے کے بعد، غیر سرکاری تنظیموں کی خواتین ملازمین کو بھیکام پر جانے سے روک دیا ۔
SEE ALSO: مغربی ملکوں کا طالبان سے انسانی بنیادی حقوق کی بحالی اور ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہیونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے گزشتہ ہفتے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر ایک بیان میں طالبان پر زور دیا کہ وہ تمام لڑکیوں کو فوری طور پر دوبارہ کلاسوں میں جانے کی اجازت دیں، اور کہا کہ انہیں حصول تعلیم سے باز رکھنے کے ملک کی معیشت اور صحت کے نظام پر دور رس اثرات ہوں گے، جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔
رسل نے کہا، ’’اس غیر منصفانہ اور کوتاہ نظری پر مبنی فیصلے نے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کی امیدوں اور خوابوں کو کچل دیا ہے اور ملک بھر میں لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی ثابت قدمی سے پامالی کے حوالے سے یہ ایک اور بے رحمانہ سنگ میل ہے۔ تین سال سے زیادہ عرصے سے لڑکیوں کو ملک بھر میں تعلیم کے حق سے محروم رکھا گیا ہے - پہلے، کووڈ۔19 کی وجہ سے، اور پھر سیکنڈری اسکول میں جانے پر پابندی کی وجہ سے۔
یونیسیف نے اتوار کو ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں افغان لڑکیوں کو تعلیم دینے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں 15 سالہ زہرہ کو اس بات پر رنج و غم کا اظہارکرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اگر اسکول کھلے ہوتے تو وہ اس سال 10ویں جماعت میں ہوتی۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر اسکول نہیں کھلتے تو مجھے زندگی سے کوئی امید نہیں ہوگی۔ ’’میں ڈاکٹر بننے کا اپنا خواب پورا نہیں کر سکتی، اور میں اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہوں‘‘۔
ایک سابق افغان عہدیدار اور سیاسی مبصر، توریک فرہادی نے کہا کہ طالبان کی طرف سے خواتین کے تعلیم کے حق کےاحترام سے انکار نے افغانستان کو بڑے عطیات دینے والوں اور شراکت داروں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
فرہادی نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ خاندان ملک سے باہر نقل وطن کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اور ایسے میں جب کہ طالبان لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر رہے ہیں، اسلامی ممالک اور افغانستان کے پڑوسیوں کا پیغام واضح ہے: ہم آپ کی حکومت کو تسلیم نہیں کر سکتے۔
طالبان نے اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح کو نافذ کیا ہے۔ وہ اپنی حکمرانی کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ افغان ثقافت اور مذہبی عقائد کے مطابق ہے۔ تاہم باقی اسلامی دنیا میں رہنے والےبہت سے افغان اور اسکالرز اس دعوے سے اختلاف کرتے ہیں۔
سابق باغی گروپ نے اگست 2021 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کے ملک سے نکلتے ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، لیکن دنیا نے انسانی حقوق کے تحفظات، خاص طور پر خواتین کے ساتھ ان کےسلوک کے حوالے سے طالبان کی حکومت کو جو عملی طور پر بر سر اقتدار ہیں، ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل 1996 سے 2001 تک طالبان نے افغانستان پر حکومت کی تھی۔ اس وقت بھی خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر مکمل پابندی عائد تھی۔
وی او اے نیوز