دارالحکومت کابل میں وزارت خارجہ کے باہر ایک خود کش بم دھماکے میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
افغانستان میں عینی شاہدین اور ڈاکٹروں نے یہ اطلاع دی ہے اور اٹلی میں قائم ایک بین الاقوامی انسانی تنظیم، ایمرجنسی نے تصدیق کی ہے کہ اس کے قریبی سرجیکل سینٹر میں زخمیوں کو لایا گیا ہے ، زخمیوں میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔
عینی شاہدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکے میں ایک سیکیورٹی چوکی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وزارت کے ملازمین دفاتر سےواپس جارہے تھے۔
ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی اطلاعات ہیں لیکن طالبان حکام نے فوری طور پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی دھماکے کی نوعیت کے بارے میں معلوم ہو سکا۔
فوری طور پر کسی گروپ نے اس مہلک بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، افغانستان میں گزشتہ ہفتے رمضان المبارک کے مسلمان روزہ رکھنے کے بعد اس طرح کا پہلا حملہ ہوا ہے۔
اس سے قبل دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ خراسان یا داعش خراسان دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کرتا رہا ہے۔
اس سے قبل پیر کو طالبان نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے بلخ میں کارروائی کر کے داعش خراسان کے تین اہم اراکین کو ہلاک کر دیا ہے۔ جن میں سے ایک کی شناخت مولوی ضیاالدین کے نام سے ظاہر کی گئی تھی۔ اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ نام نہاد گورنر اور گروپ کا دوسرا اہم ترین عہدے دار تھا۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ شمالی افغانستان میں داعش خراسان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے لیے رکن ممالک کی طرف سے شیئر کردہ انٹیلی جنس نے خبردار کیا تھا کہ داعش خراسان کے پاس 1,000 سے 3,000 تک جنگجو ہیں جنہوں نے کابل اور افغان صوبوں کنڑ، ننگرہار اور نورستان میں اپنے سیل قائم کیے ہیں۔ یہ تمام علاقے پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہیں۔
(وی او اے نیوز)