افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی نے کہا ہے کہ افغانستان کسی کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے بات چیت کو ترجیح دیتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار امیر خان متقی نے پیر کو طالبان حکومت کی جانب سے 'ریجنل کوآپریشن انیشیٹیو' کے نام سے بلائی گئی کانفرنس میں کیا۔
کانفرنس میں پاکستان، بھارت، چین، ترکیہ، روس اور ازبکستان سمیت 11 ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
امیر خان متقی نے شریک ممالک پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے متعلق آئندہ ماہ دوحہ میں شیڈول اجلاس میں افغانستان کی صورتِ حال دنیا کے سامنے رکھیں۔
یاد رہے کہ 18 اور 19 فروری کو دوحہ میں افغانستان کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایک خصوصی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔
امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ افغانستان تقریباً 50 برس سے عدم استحکام سے دوچار ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ خطے کا کوئی دوسرا ملک اس طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہو۔ لہذٰا طالبان حکومت خطے کی سلامتی اور استحکام پر زور دیتی ہے۔
امیر خان متقی نے دعویٰ کیا کہ طالبان حکومت ملک کی تعمیرِ نو کر رہی ہے۔ منشیات کے خاتمے اور خطے کے لیے خطرہ بننے والے گروہوں کو ختم کرنے میں اسے کامیابی مل رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ اجلاس خطے میں باہمی تعاون کے قیام اور خطے کے مشترکہ مفادات اور خطرات کے بارے میں تبادلۂ خیال کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔"
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ طالبان عالمی برادری کے لیے ایک مسئلہ تو ہیں لیکن اب مجبوری بن چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تاحال کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ لیکن بڑی تعداد میں ممالک کا اس کانفرنس میں شریک ہونا طالبان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
ان کے بقول یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری اس حال میں بھی طالبان حکومت کے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند ہے۔
سمیع یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ یہ کانفرنس آئندہ ماہ دوحہ کانفرنس کے حوالے سے ایک گائیڈ لائن ہے جو اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس کے حوالے سے طالبان کو شمولیت کا پیغام بھیج دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ طالبان حکومت مغربی ممالک کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے روزگار پر پابندی کے حوالے سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ ادوار میں افغانستان کے حوالے سے کانفرنسز کا انعقاد کسی تیسرے ملک میں ہوتا تھا۔ لیکن اب اس قسم کی کانفرنسز کابل میں ہو رہی ہیں۔
کابل میں مقیم تجزیہ کار سیال یوسفی کہتے ہیں کہ یہ کانفرنس اس نوعیت کا تیسرا بڑا اجلاس تھا جو کہ کابل میں منعقد ہوا۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہمسایہ اور دیگر ممالک کی شرکت سے طالبان حکومت کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
ان کے مطابق بڑی تعداد میں سفارت کاروں کے آنے کے بعد افغانستان میں سرمایہ کاری کے مزید راستے کھلیں گے۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے 23.7 ملین یعنی ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو 2024 میں اپنی بقا کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد کی ضرورت ہو گی۔