افغان طالبان کا ہمسایہ ملکوں پر داعش کی حمایت کا الزام: 'بلیم گیم کا فائدہ دہشت گرد اُٹھائیں گے'

  • داعش کی افغانستان میں کارروائیوں سے متعلق طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ کا بیان
  • تین ہمسایہ ممالک افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے داعش کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں: امیر خان متقی
  • امیر خان متقی نے کسی ملک کا براہِ راست نام نہیں لیا، تاہم سوشل میڈیا میں زیر گردش خبروں میں انگلیاں پاکستان، تاجکستان اور ایران کی جانب اٹھ رہی ہیں۔
  • پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات 'فرینمیز' کی طرح ہیں جو دوستی کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ لیکن حالات کی سنگینی انہیں ایک دوسرے کے مدِمقابل لا کھڑا کرتی ہے: ماہرین
  • داعش خراسان کی بنیاد 2015 میں پاکستانی طالبان کے منحرف ارکان نے رکھی تھی: تجزیہ کار سمیع یوسفزئی

طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے الزام لگایا ہے کہ تین ہمسایہ ممالک افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں دہشت گرد تنظیم داعش کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔

امیر خان متقی کے مطابق ان تین ممالک میں سے ایک ملک داعش کو افرادی قوت، دوسرا تربیت جب کہ تیسرا رسد فراہم کرتا ہے۔

امیر خان متقی نے کسی ملک کا براہِ راست نام نہیں لیا، تاہم سوشل میڈیا میں زیر گردش خبروں میں انگلیاں پاکستان، تاجکستان اور ایران کی جانب اٹھ رہی ہیں۔

طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے ایک افغان شہری کا اعترافی بیان پاکستانی میڈیا میں نشر ہوا تھا جس نے پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔

مذکورہ افغان شہری نے یہ بھی کہا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی اور دہشت گردوں کو سرحد تک لانے میں افغان طالبان نے مدد فراہم کی۔

واضح رہے کہ پاکستان اور طالبان حکومت دہشت گردی کے معاملے پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کا یہ گلہ ہے کہ افغان طالبان افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر رہے۔ پاکستان کی حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی روکنا طالبان کی ذمے داری نہیں ہے۔

'بلیم گیم کا فائدہ دہشت گرد اُٹھائیں گے'

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور افغانستان دونوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے ایسے میں 'بلیم گیم' کا فائدہ شدت پسند تنظیمیں اُٹھائیں گی۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کے مطابق افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ داعش خراسان کی بنیاد 2015 میں پاکستانی طالبان کے منحرف ارکان نے رکھی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امیر خان متقی ایک نہایت سنجیدہ وزیر ہیں اور ڈپلومیسی کی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ تاہم ان کی جانب سے اس قسم کے الزامات دونوں ممالک کے درمیان خلیج میں مزید اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر نے واضح کیا کہ امیر خان متقی نے یہ الزامات اپنی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی تحقیق کی بعد ہی لگائے ہوں گے اور جب طالبان قیادت کی جانب سے اس قسم کے سنگین الزامات ہمسایہ ممالک پر لگائے جائیں تو نچلی سطح پر لڑنے والے جنگجو بھی اپنی قیادت کے الفاظ پر من و عن عمل کرتے ہیں اور وہ ان کے لیے یہ پتھر پر لکیر کی مانند ہوتے ہیں۔

سمیع یوسفزئی کے مطابق ماضی میں سابق افغان صدور اشرف غنی اور حامد کرزئی بھی اس نوعیت کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں، تاہم اس 'بلیم گیم' سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

سمیع یوسفزئی کے بقول بہتر یہی ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں۔

یاد رہے کہ امیر خان متقی کے بیان سے قبل گزشتہ ہفتے افغانستان کے لیے پاکستانی نمائندہ خصوصی آصف درانی نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان کے ساتھ متصل سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 75 برسوں کے دوران پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہونے والی تین جنگوں میں اتنا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا جتنا افغانستان کے اندرونی حالات کی وجہ سے ہوا ہے۔

ان کے بقول دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان نے ہزاروں بے گناہ معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کی بھی قربانیاں دیں۔ اس کے علاوہ اربوں روپے کا معاشی نقصان بھی سہنا پڑا۔

پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت بھی کھلے عام پاکستان کے اندر ہر طرح کی دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرتکب افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ہی قرار دیتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی بس پر ہونے والے خود کش حملے میں پانچ چینی انجینئر ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد پاکستان آرمی کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاضم منیر نے کور کمانڈر کانفرنس کے اختتام پر کہا تھا کہ افغانستان میں چھپے دہشت گرد سی پیک کے خلاف پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں جو کہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

چینی انجینئروں کی گاڑی پر ہونے والے خود کش حملے سے ٹی ٹی پی نے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم پاکستان کی سویلین اور ملٹری قیادت پاکستان میں ہونے والے حملوں کا موردِ الزام ٹی ٹی پی کو ہی ٹھہراتی ہے۔

'پاکستان اور افغان طالبان 'فرینمیز' ہیں'

سینئر تجزیہ کار داؤد خٹک پاکستان اور افغان طالبان کے لیے 'فرینمیز' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 'فرینمیز' سے مراد دو ایسے فریق ہیں جو ویسے تو دوستی کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات حالات کی سنگینی انہیں ایک دوسرے کے مدِمقابل لا کھڑا کرتی ہے۔

داؤد خٹک کے مطابق پاکستان اپنی عوام کو خوش کرنے کے لیے ایک حد تک تو افغان طالبان یا افغانستان میں اندر کارروائی تو کر سکتا ہے لیکن اس کو مزید طوالت دینا پاکستان کے بس کی بات نہیں ہو گی۔

ان کے بقول کچھ عرصہ قبل پاکستان کی جانب سے افغان صوبہ خوست اور پکتیا کے اندر مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کے بعد پاکستان کے اندر گوادر، تربت اور غیر ملکیوں کے خلاف شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

داؤد خٹک کے مطابق اگرچہ اس بابت ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں کہ پاکستان کے اندر ان حملوں میں ٹی ٹی پی ملوث ہے تاہم پاکستان کی طرف سے افغانستان کے اندر فضائی کارروائی کے بعد پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر حملوں کی کڑیاں ٹی ٹی پی سے ملتی ہیں۔