|
افغان طالبان کے وزیر تجارت نے کہا ہے کہ ان کی حکومت، قازقستان اور ترکمانستان کے درمیان مغربی افغانستان میں ایک خشک بندرگاہ بنانے پر اتفاق ہوا ہے، جس کا مقصد افغانستان کو علاقائی برآمدات کی ترسیل کے ایک مرکز کی حیثیت دینا ہے، جس میں روس سے جنوبی ایشیا تک تیل کی تجارت بھی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تینوں ملکوں کے نمائندوں کے درمیان اجلاس کے بعد طالبان کے قائم مقام وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے رائٹرز کو بتایا کہ اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے تیکنکی ماہرین کی ٹیمیں تجارتی نقل و حمل کے مرکز کے قیام سے متعلق دو ماہ میں ایک باضابطہ تحریری معاہدہ کریں گی جس کے بعد تینوں ملک اس میں سرمایہ کاری کریں گے۔
قائم مقام وزیر تجارت عزیزی نے کہا ہے کہ اس خطے کی ایک اہم اور قدیم تجارتی گزرگاہ افغانستان سے گزرتی ہے، جسے قدیم شاہراہ ریشم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ شاہرہ ماضی میں جنوبی اور وسطی ایشا کے درمیان تجارت کا ایک ذریعہ تھی اور یہ چین کو ایران سے ملاتی تھی۔
SEE ALSO: تیل اور گیس کے لیے پاکستان کا روس پر بڑھتا انحصار؛ 'ماسکو کو اب نئے گاہک چاہئیں'ان کا کہنا تھا کہ ہم اس لاجسٹک سینٹر کے ذریعے شمالی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے جوڑنے کی سہولت فراہم کریں گے جس سے نقل و حمل کے اخراجات میں کمی ہو گی۔ عزیزی نے روس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو توقع ہے کہ یہ مرکز آنے والے برسوں میں روسی تیل کی ترسیل، بالخصوص پاکستان کے لیے، سہولت فراہم کرے گا۔
طالبان کے وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ان کی توجہ روس کی پٹرولیم کی برآمدات پر ہے جو افغانستان کے راستے سے پاکستان پہنچانا بہترین آپشن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قازقستان بھی ہرات کے راستے جنوبی ایشیا کی منڈیوں تک اپنا سامان برآمد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
قازقستان کی وزارت تجارت نے اپنے ایک بیان میں رائٹرز کو بتایا ہے کہ وہ افغانستان کی سڑکوں اور ریلوے کو ترقی دینا چاہتا ہے تاکہ یہ لاجسٹک مرکز جنوبی ایشیا اور خلیجی ممالک کے درمیان ایک اہم رابطے کے طور پر کام کر سکے۔
SEE ALSO: بھارتی وزیرِ خارجہ کا دورۂ ماسکو: روس کے ساتھ مضبوط دوستی کا اعادہبیان میں کہا گیا ہے کہ یہ لاجسٹک مرکز ایک خشک بندرگاہ کے طور پر کام کرے گا، جس میں سامان کی ترسیل کے لیے سڑکوں اور ریل کی سہولت موجود ہو گی۔ یہاں سے تجارتی سامان پاکستان اور بھارت کی سمندری بندرگاہوں تک پہنچایا جائے گا جہاں سے آگے ترسیل ہو سکے گی۔
عزیری نے بتایا کہ اس خشک بندرگاہ میں ابتدائی طور پر 10 لاکھ ٹن تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ سہولت کب سے میسر ہو گی۔
پاکستان، جسے زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہے، گزشتہ سال سے روسی تیل کا خریدار بن گیا ہے۔ جب کہ روس کی پابندیوں کی وجہ سے مغربی ممالک میں تیل کی فروخت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
افغانستان بھی روس سے تیل، گیس اور گندم رعایتی نرخوں پر خرید رہا ہے۔
ترکمانستان کی حکومت نے رائٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح روس اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم پاکستان افغانستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور اس نے علاقائی توانائی کے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ اور یورپی ملکوں کا روس کے جوہری ایندھن پر انحصار کیسے کم ہوگا؟افغانستان انٹرنیشنل ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تینوں ملکوں کے عہدے داروں کا اجلاس 26 اپریل کو ہوا تھا جس میں ہرات کے ایک قصبے تورغوندی میں خشک بندرگاہ بنانے پر بات چیت ہوئی۔
اس مرکز کے قیام کے مقصد شمالی اور جنوبی ایشیا کے تجارتی رشتوں کو فروغ دینا ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے لیے غیرملکی امداد میں کمی آئی ہے اور اس ملک کو دوسرا نقصان، جس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے، مسلسل خشک سالی سے بھی پہنچا ہے، جس کی وجہ سے اسے معاشی جمود سے بچنے کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں روسی تیل: ہر ملک کو توانائی سےمتعلق فیصلے خود کرنا ہوں گے، امریکی محکمہ خارجہطالبان کے لیے ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ان کی حکومت کو ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور انسانی حقوق اور بالخصوص خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے انہیں عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے جو جنگ سے متاثرہ اس ملک کی بین الاقوامی امداد کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔
پاکستان افغانستان کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور اس نے علاقائی توانائی کے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔
لیکن حالیہ عرصے میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے اسلام آباد اور طالبان کے درمیان تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ طالبان پاکستان مخالف عسکری گروپوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے جب کہ کابل اس سے انکار کرتا ہے۔
SEE ALSO: طالبان روس سے زیادہ مقدار میں تیل اور پیٹرولیم مصنوعات خریدیں گےلیکن حالیہ عرصے میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے اسلام آباد اور طالبان کے درمیان تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ طالبان پاکستان مخالف عسکری گروپوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے جب کہ کابل اس سے انکار کرتا ہے۔
عزیزی نے بتایا کہ طالبان چینی حکام سے افغانستان کو چین سے ملانے کے لیے داخان کے راستے سے سڑک کی تعمیر پر بات کر رہے ہیں، جس سے چین، افغانستان اور ایران کے درمیان ایک تجارتی راہداری قائم ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ افغان وزارت تجارت نے حال ہی میں اپنے اہل کاروں کو تربیت کے لیے چین بھیجا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)