رسائی کے لنکس

تیل اور گیس کے لیے پاکستان کا روس پر بڑھتا انحصار؛ 'ماسکو کو اب نئے گاہک چاہئیں'


پاکستان کے نگراں وزیرِ توانائی کی سربراہی میں ایک وفد ان دنوں روس کے دورے پر ہے۔ ماہرین اس دورے کو پاکستان کے معاشی بحران اور توانائی کی ضروریات کے تناظر میں اہم قرار دے رہے ہیں۔

ایک جانب جہاں پاکستان اس وقت معاشی بحران کے باعث توانائی تیار کرنے والی سستی مصنوعات کی تلاش میں ہے۔ وہیں روس یوکرین جنگ کے بعد یورپی یونین سے تعلقات میں سرد مہری اور روسی معیشت کو درپیش نئے خدشات کے باعث ایشیا اور افریقہ میں نئے گاہک تلاش کر رہا ہے۔

دورے میں پاکستان میں روسی سرمایہ کاری سے 1100 کلو میٹر طویل ایل این جی پائپ لائن کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کی دوری، خام تیل کی درآمد اور ایل این جی کی درآمد پر بات چیت کی جائے گی۔

پاکستان میں معائع قدرتی گیس پائپ لائن منصوبہ

روس اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت تحت روسی کمپنی نے کراچی سے لاہور ڈویژن کے ضلع قصور تک ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے گیس پائپ لائن بچھانی ہے جسے پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن کا منصوبہ کہا جاتا ہے۔

سال 2020 میں روس اور پاکستان کی تیکنیکی کمیٹیوں کے اجلاس میں دونوں ممالک نے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر بات چیت کو بحال کیا تھا جس پر 2015 میں دستخط کیے گئے تھے۔

لیکن روس کی سرکاری کمپنی روسٹیک پر مغربی ممالک کی پابندیوں کی وجہ سے اس پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔

سستا روسی تیل،پاکستانی عوام کے لئے ریلیف؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:46 0:00

اب اس منصوبے کا نام تبدیل کر کے پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن پروجیکٹ رکھا گیا ہے اور اب یہ منصوبہ گیزپروم نامی روسی سرکاری کمپنی مکمل کرے گی۔

تقریباً 11 سو کلو میٹر پی ایس جی پی منصوبے کے تحت کراچی اور پھر گوادر میں مستقبل میں قائم ہونے والے کے ایل این جی ٹرمینلز سے لاہور تک مائع قدرتی گیس (ایل این جی) منتقل کرنے کے لیے پائپ لائن بچھائی جائے گی۔

جولائی 2021 میں طے پانے والے معاہدے میں کی گئی ایک ترمیم کے تحت ماسکو نے اسلام آباد کو اس منصوبے میں اکثریتی حصے کی ملکیت یعنی (74 فی صد) دے دیا ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے مہارت فراہم کرنے اور فنڈنگ میں مدد کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 1960 اور 70 کی دہائیوں کے بعد روس کی پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی۔ اس دہائی میں سابقہ سوویت یونین نے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) اور پاکستان اسٹیل ملز کی ترقی میں پاکستان کی مدد کی تھی۔

'پاکستان سستی توانائی اور روس نئے گاہکوں کی تلاش میں ہے'

دونوں ممالک کے توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے تعلقات پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران، روس اور پاکستان نے مضبوط سیاسی عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب پاکستان کو اپنی اقتصادی حالت کی بہتری اور اس مقصد کے لیے مغربی ممالک پر معاشی فوائد کے لیے انحصار کم کرنے کی خواہش ہے۔ تو دوسری جانب توانائی کی فراہمی کے حصول کے ساتھ ایشیا میں اپنے اقتصادی قدموں کو بڑھانے کی روسی خواہش دونوں ممالک کو اس سمت میں تعاون کی جانب کھینچتی ہے۔

'پاکستان، روس کا نیا خریدار بن چکا ہے'

نیشنل یونی ورسٹی آف سنگا پور میں انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز سے ماضی میں منسلک رہنے والی کلاڈیا شیا نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ پاکستان خطے میں تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں روس سے توانائی حاصل کرنے والا نیا خریدار بن چکا ہے۔ روس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں اور وہ دنیا میں تیل برآمد کرنے والا بھی بڑا ملک بھی ہے۔

روس یورپی یونین کے ممالک کو توانائی فراہم کرنے والا ایک بڑا سپلائر پہلے ہی ہے۔ لیکن یورپ کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے ڈی کاربو نائزیشن کی پالیسی اپنانے اور قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر انحصار بڑھانے کی صورت میں روس کو اپنی توانائی پیدا کرنے والی مصنوعات بیچنے کے لیے نئے ممالک درکار ہیں۔

دوسری جانب اس وقت پاکستان میں گیس کی کمی 1.5 بلین کیوبک فٹ یومیہ ہو چکی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں یہ دگنی ہو جائے گی۔ اور ایسے میں اس کے اثرات گھریلو سپلائی کم ہونے اور اس سے پیدا شدہ مشکلات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس صورتِ حال میں پاکستان نے 2015 میں ایل این جی کی درآمد شروع کی تاکہ کھپت میں اضافے کے مسئلے سے نمٹا اور تیل کی درآمد کو بھی کم کیا جا سکے۔

صرف چند برسوں میں، اسلام آباد دنیا کے بڑے ایل این جی درآمد کنندگان میں سے ایک ہو گیا ہے۔ اس وقت قطر پاکستان کو گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

ایسے میں روس پاکستان کو توانائی کے ایک نئے کلائنٹ کے طور پر خوش آمدید کہنے کے لیے بے چین ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی ایل این جی کی پیداواری صلاحیت کو تین گنا کرنے اور 2035 تک ایل این جی کی برآمدات میں اضافے کا ارادہ رکھتا ہے۔

پاکستان روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل مستقل بنیادوں پر خریدنے کا خواہش مند

ادھر رواں سال روس سے پاکستان کو جی ٹو جی (حکومت سے حکومت کے درمیان) معاہدے کے تحت جون میں خام تیل کی پہلی کھیپ پہنچائی گئی تھی جو تجرباتی بنیادوں پر صرف ایک لاکھ ٹن منگوائی گئی تھی تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ پاکستان کی ریفائنریز میں اس کی پروسسنگ میں کیا مسائل آ سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الوقت اس کی پراسسنگ اور منگوانے کے لیے شپنگ اخراجات، عرب لائٹ سے کم نہیں آئے۔ عرب لائٹ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے درآمد کیے گئے خام تیل کو کہا جاتا ہے جو پاکستان کو تیل فراہم کرنے والے دو بڑے ممالک ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کو روس سے مائع پیٹرولیم گیس یعنی ایل پی جی کی درآمد شروع ہو گئی ہے اور اس سلسلے میں ایک لاکھ میٹرک ٹن کی پہلی کھیپ گزشتہ ماہ کے آخر میں ایران کے راستے پاکستان پہنچی تھی۔

گیس کی فراہمی کے لیے روس پر انحصار؟

توانائی امور پر پاکستانی تجزیہ کار فرحان محمود کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں تجرباتی بنیادوں پر تیل درآمد کرنے کے بعد پاکستان کی روس سے یہ دوسری بڑی خریداری ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مائع گیس کی دوسری کھیپ کی درآمد کے لیے بھی دونوں ممالک کے درمیان مشاورت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان قطر یا دیگر ممالک کے مقابلے میں روس سے گیس اور تیل سستی حاصل کر پائے گا یا نہیں۔

ان کے خیال میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہاں سے خریداری سستی پڑے گی۔ لیکن جیو اسٹرٹیجک حالات میں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان توانائی سمیت دیگر امور پر بھی اپنا انحصار بانٹنا چاہتا ہے اور چین کے ساتھ اس کی قربت کو بھی روس سے توانائی کی مصنوعات کی خریداری میں ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

پاکستان کی وزارت توانائی میں پیٹرولیم ڈویژن کے ایک ذریعے نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پاکستان روس سے خام تیل 60 ڈالر فی بیرل قیمت فکس کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اس دورے میں اس نکتے پر بھی بات چیت ہو گی۔ اگر یہ قیمت طے ہو جاتی ہے تو پاکستان ابتدائی طور پر اپنی ضرورت کا 20 فی صد تیل روس سے درآمد کرنے کا خواہش مند ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG