پاکستان کے وفد اور افغانستان میں طالبان حکام کے درمیان ملاقات میں پیش رفت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
سفارتی ذرائع نے جمعے کو وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ افغانستان کے طالبان حکام نے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کو 'بے اثر' کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے جمعرات کو کابل میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد سے ملاقات کے دوران یہ یقین دہانی کرائی۔
پاکستان کے وفد کی قیادت افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے کی جب کہ ان کے ہمراہ سینئر عسکری حکام بھی موجود تھے۔
وفد کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں تیزی آئی ہے۔
SEE ALSO: غیر قانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری؛ 'پاکستان پالیسی پر نظرِثانی کرے'ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما اور جنگجوؤں نے افغانستان میں پناہ لی ہوئی ہے اور دو سال قبل طالبان کے کابل کا اقتدار سنبھالنے کے بعد سرحد پار سے حملوں میں شدت آئی ہے۔
گزشتہ برس ٹی ٹی پی کے متعدد حملوں میں پاکستان سیکیورٹی فورسز کے کئی اہل کار جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ذرائع نے وی او اے کو بتایا کہ جمعرات کو ہونے والے مذاکرات کا مرکز و محور پاکستانی طالبان یعنی ٹی ٹی پی تھا۔ افغان فریق کو بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنا اسلام آباد کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ کابل انتظامیہ نے "یقین دلایا کہ وہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔"
اس ملاقات میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر سیکیورٹی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے باقاعدہ مشاورت کی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگرچہ پاکستانی حکام کی جانب سے ان مذاکرات سے متعلق کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔ لیکن امیر خان متقی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کو ایسے بیانات دینے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جس سے باہمی عدم اعتماد کی صورتِ حال پیدا ہو۔
طالبان رہنما نے 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر بیان میں کہا کہ "کسی کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔" تاہم انہوں نے ٹی ٹی پی کا کوئی ذکر نہیں کیا نہ ہی ان کی سرگرمیوں کو روکنے سے متعلق کابل کی مبینہ وعدے کا حوالہ دیا۔
طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔