|
اگر امریکہ افغان قیدیوں کو رہا کر دے تو طالبان حکومت افغانستان میں قید دو امریکیوں کو رہا کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ یہ بات بدھ کے روز افغان حکومت کے ترجمان نے کہی۔
طالبان کے اعلیٰ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں اس ہفتے دوحہ کانفرنس میں امریکی عہدیداروں سے بات ہوئی تھی جیسا کہ اس سے پہلے بھی یہ معاملہ میٹنگز میں اٹھایا جا چکا ہے۔
مجاہد نے کہا، " افغانستان کی شرائط پوری کی جانی چاہئیں۔ ہمارے لوگ امریکہ اور گوانتانا مو بے میں قید ہیں۔"
مجاہد نے مزید کہا،"ہمیں ان کے لوگوں کے بدلے میں اپنے لوگ رہا کروانے چاہئیں۔ جیسے ان کے قیدی امریکہ کے لیے اہم ہیں اسی طرح افغان ہمارے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔"
ترجمان نے گوانتانا مو بے، کیوبا میں امریکی جیل میں بند افغان قیدیوں سمیت امریکی حراست میں موجود افغان شہریوں کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
مجاہد، دوحہ کانفرنس سے افغان دارالحکومت واپسی پر نامہ نگاروں سے بات کر رہے تھے۔ دوحہ میں انہوں نے اقوامِ متحدہ کے تحت پیر کو ختم ہونے والی، افغانستان کے لیے بین الاقوامی نمائندوں کی دو روزہ کانفرنس میں افغان وفد کی قیادت کی تھی۔
قطر کے دارالحکومت میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی اس کانفرنس میں امریکی عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔
منگل کے روز امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی، تھامس ویسٹ اور رینا امیری نے دوحہ میں طالبان نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔
SEE ALSO: دوحہ مذاکرات ختم؛ طالبان وفد بین الاقوامی برادری سے مراعات حاصل نہ کر سکاامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے نامہ نگاروں کو بتایا، "ان میٹنگز کے دوران نمائندہ خصوصی ویسٹ نے افغانستان میں غیر منصفانہ طور پر قید امریکی شہریوں کی فوری رہائی پر زور دیا اور باور کروایا کہ شہریوں کی حراست، طالبان کی اس خواہش میں پیش رفت کو روک رہی ہے کہ انہیں بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جائے۔"
طالبان کا کہنا ہے کہ یہ دو امریکی ان متعدد غیر ملکی شہریوں میں شامل ہیں جنہیں حال ہی میں ترکِ وطن کے مقامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر افغانستان میں قید کیا گیا ہے۔
امریکی عہدیداروں اور رشتے داروں نے ایک زیرِ حراست امریکی کی شناخت رائن کوربیٹ کے طور پر بتائی ہے جب کہ دوسرے شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
SEE ALSO: کیا ماسکو طالبان پر سے پابندیاں ہٹانے والا ہے؟کوربیٹ کو افغانستان پر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد اگست 2022 میں حراست میں لیا گیا تھا۔ افغان جنگ میں تقریباً 20 سال کی شمولیت کے بعد امریکی زیر قیادت مغربی فوجیوں کے انخلاء کے بعد کابل میں بنیاد پرست طالبان اگست 2021 میں اقتدار میں واپس آئے تھے۔
کوربیٹ کے اہل خانہ اور امریکی قانون سازوں نے بارہا امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی محفوظ اور جلد رہائی کے لیے مزید اقدامات کریں۔ اپنی حراست کے بعد سے، کوربیٹ اپنی بیوی اور تین بچوں سے فون پر بات کرتے رہے ہیں۔
رشتے دار اور سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ تیسرے امریکی قیدی کا نام محمود حبیبی ہے جو دیگر غیر ملکیوں کے ساتھ حراست میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حبیبی کو اگست 2022 میں ان کے گھر کے باہر سے حراست میں لیا گیا۔
طالبان کے انٹیلی جینس کے ادارے کو شبہ تھا کہ حبیبی امریکہ کے اس ڈرون حملے میں ملوث تھا جس میں القاعدہ نیٹ ورک کے مفرور سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت ہوئی۔
انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں تک رسائی پر پابندی پر تشویش کے باعث اب تک کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوحہ میں اقوامِ متحدہ کی کانفرنس کا مقصد، جنگ سے تباہ حال افغانستان میں اقتصادی اور انسانی زندگی کے گہرے ہوتے مسائل پر دنیا کو رابطوں میں سہولت اور تعاون فراہم کرنا تھا۔
دو روزہ کانفرنس طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیاں ختم کرنے کے کسی وعدے یا بین القوامی برادری کی جانب سے کسی رعایت پر رضامندی کے حصول کے بغیر ختم ہو گئی۔
سیاسی اور امن سازی کے امور کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے اجلاس کے اختتام پر صحافیوں کو بتایا کہ "افغانستان بین الاقوامی سطح پر واپس نہیں آ سکتا اور نہ ہی معاشی اور سماجی طور پر مکمل ترقی کر سکتا ہے اگر اسے اپنی نصف آبادی کی شراکت اور صلاحیت سے محروم رکھا جائے۔" انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کی جانب سے اس کانفرنس کی صدارت کی۔
مجاہد نے بدھ کے روز کابل میں بات کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ خواتین کے بارے میں ان کے قوانین ایک اندرونی افغان معاملہ ہے اور کہا کہ غیر ممالک یا تنظیموں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
(وائس آف امیریکہ)