افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی سیکیورٹی فورسز نے دارالحکومت کابل میں اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ایک ’’ٹھکانے‘‘ پر چھاپہ مار کر عسکریت پسند گروپ کے کئی ارکان کو ہلاک کر دیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی یہ کارروائی سعودی عرب کی جانب سے مبینہ طور پر سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں موجود اپنے تمام سفارت کاروں اور سفارت خانے کے عملے کو نکالنے کے اقدام کے ایک ہفتے بعد عمل میں آئی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کرت نو کے رہائشی علاقے میں کی جانے والی اس کارروائی کے کچھ ہی دیر بعد اس کی کچھ تفصیلات کا اعلان کیا۔ تاہم ترجمان نے اس کے بعد نئی معلومات شیئر نہیں کیں۔
مجاہد نے دعویٰ کیا کہ آپریشن میں سرعت سے ’’داعش کے کچھ اہم ارکان کو ہلاک کر دیا گیا ہے جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔‘‘
ترجمان نے دہشت گرد گروپ کی افغان شاخ کے لیے ایک مقامی نام استعمال کیاجسے اسلامک اسٹیٹ-خراسان یا ISIS-K کے نام سے جانا جاتا ہے۔
طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ’’یہ داعش گروپ کا ایک اہم ٹھکانہ تھا جو کابل میں حالیہ حملوں اور جرائم کا ذمے دار تھا۔‘‘
طالبان ترجمان کے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنا ممکن نہیں ۔
داعش خراسان یا’ آئی ایس آئی ایس۔کے‘ نے حالیہ مہینوں میں افغانستان میں کئی ہائی پروفائل مہلک بم حملے اور دیگر کارروائیاں کی ہیں ۔ ان کارروائیوں میں روس اور پاکستان دونوں کے سفارت خانوں اور کابل کے مرکز میں چینی زیر انتظام ایک ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
SEE ALSO: پشاور دھماکہ: 'پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان بداعتمادی بڑھی ہے'اس معاملے سے آگاہ سفارتی ذرائع کے مطابق اس ماہ کے شروع میں 19 سعودی سفارت کاروں اور سفارت خانے کے دیگر عملے کو ملک سے نکال لیا گیا تھا جس کی وجہ ایسی اطلاعات تھیں جن کے مطابق آئی ایس آئی ایس۔کے گروپ کابل میں غیر ملکی مشنوں کے خلاف ممکنہ ٹرک بم حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
طالبان کے ترجمان مجاہد نے اس وقت زور دے کر کہا تھا کہ سعودی عرب کے سفارتی عملے کی روانگی ایک عارضی اقدام ہے اور اس کا تعلق سیکیورٹی خدشات سے نہیں ہے۔
انہوں نے افغان میڈیا کو بتایا کہ ’’سعودی عرب کے سفارت خانے کے کچھ ملازمین ٹریننگ کے لیے گئے ہیں اور جلد واپس آجائیں گے۔‘‘
فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا سعودی سفارت کار اس کے بعد کابل واپس آئے ہیں اور نہ ہی ریاض نے اپنے افغان سفارتی مشن کی حیثیت یا اسے درپیش ممکنہ خطرے کے بارے میں کوئی بیان دیا ہے
SEE ALSO: پشاور حملہ: کیا دہشت گردوں کے 'سلیپنگ سیلز'متحرک ہو رہے ہیں؟داعش خراسان گروپکے ایک خودکش حملہ آور نے گزشتہ ستمبر میں روسی سفارت خانے کے باہر خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا جس میں عملے کے دو افراد اور افغان ویزا کے لیے آئے چار افراد ہلاک ہو گئےتھے۔
بعد ازاں دسمبر میں ایک اہم پاکستانی سفارت کار مبینہ طور پر دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک مسلح شخص کی جانب سے قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔
اس حملے سے چند روز قبل داعش خراسان کے دو مبینہ مسلح افراد نے کابل کے ہوٹل میں پانچ چینی مہمانوں پر حملہ کر کےانہیں زخمی کر دیا تھا
طالبان نے حال ہی میں سفارت خانوں کی حفاظت میں اضافہ کیا ہے اور بار بار داعش خراسان کی طرف سے لاحق خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی افواج نے ملک میں گروپ کی موجودگی کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔
تاہم امریکہ طالبان کے دعووں پر سوال اٹھاتا رہتا ہے۔ واشنگٹن داعش خراسان کو افغانستان میں داعش سے وابستہ ’’خطرناک عامل‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کو واشنگٹن میں دہشت گرد گروپ کی افغان شاخ کا مخفف نام استعمال کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا "ہم نے ’’آئی ایس آئی ایس۔کے کی ہلاکت انگیزی دیکھی ہے ۔‘‘
پرائس نے کہا کہ ’’صدر بائیڈن نےآئی ایس آئی ایس۔کے‘ پر توجہ مرکوز رکھنے کا عزم کر رکھا ہے اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور ہمارے شراکت داروں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں گے ۔‘‘
امریکہ سمیت بیشتر ممالک نے اگست 2021 میں افغانستان میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے جب طالبان نے جنگ زدہ جنوبی ایشیائی ملک سے امریکی اور نیٹو فوجی دستوں کی واپسی کے بعد بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت سے اقتدار چھین کر اس پر قبضہ کر لیا تھا۔
غیر ملکی حکومتوں نے انسانی حقوق اور دہشت گردی سے متعلق خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
جب کہ مغربی ممالک اور متعدد دوسرے ممالک نے طالبان کے قبضے کے بعد اپنے سفارت خانے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منتقل کر دیےہیں۔
تاہم کئی علاقائی ممالک نے کابل میں اپنے سفارتی مشن کو برقرار رکھا ہے۔ ان میں چین، روس، پاکستان، بھارت ، ترکی، متحدہ عرب امارات، قطر، کرغزستان، قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔
(ایاز گل۔ وی او اے نیوز)