افغانستان کے بعد ایران کی سرحد سے پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات نے حکومتِ پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
پاکستان کی فوج نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں دہشت گردوں نے ایرانی سرزمین استعمال کر کے سیکیورٹی اہلکاروں کے ایک قافلے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں چار اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔"
بلوچ لبریشن فرنٹ نامی کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے سرحدی علاقے مند میں ہوا ہے جسے پاکستان کی فوج اپنے بیان میں پنجگور کا علاقہ بیان کررہی ہے۔
ایران نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کا مشترکہ مسئلہ ہے اور دونوں ملک ہی اس کے متاثرین ہیں۔
صوبہ بلوچستان کے مکران ڈویژن میں پاک ایران سرحد کے قریب کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کے حملے کافی عرصے سے جاری ہیں۔
ان حملوں پر ماضی میں حکومتِ پاکستان کا ایران سے مطالبہ رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے اور پاکستانی علیحدگی پسندگروہوں کے ٹھکانے ختم کرے۔
پاکستان کی حکومت اورسیکیورٹی ادارے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ایران میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے اپنے ٹھکانے قائم کررکھے ہیں جہاں سے وہ حملہ آوروں کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے بھیجتے ہیں۔
گزشتہ برس 25 جنوری کو بلوچ لبریشن فرنٹ نے ضلع کیچ میں 10 سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا جس کے چند روز بعد ہی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے نوشکی اور پنجگور میں فوجی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔ ان حملوں کے بعد پاکستان کے اُس وقت کے وزیرِِ داخلہ شیخ رشید نے کو قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں تصدیق کی تھی کہ کالعدم علیحدگی پسند گروہ، ایرانی صوبے سیستان اور بلوچستان کے راستے دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔
پاک ایران سرحد اورمنقسم بلوچ
پاکستان کی افغانستان کی سرحد کی طرح ایران کے ساتھ سرحد بھی حالیہ سالوں میں غیرمحفوظ ہوتی چلی جارہی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان 950 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو ایران کے صوبہ سیستان وبلوچستان کو پاکستان کے صوبے بلوچستان سے علیحدہ کرتی ہے۔
ماہرین کاکہناہے کہ پاک ایران سرحد کی غیرمحفوظ ہونے کی کافی وجوہات ہیں جن میں دونوں ملکوں کے بلوچ مسلح گروہوں کی سرگرمیاں، سرحد کے دونوں طرف منقسم بلوچ آبادی، منشیات اور پیٹرول وڈیزل کی اسمگلنگ اورعوام میں وسیع عدم اطمینان شامل ہے۔
ایرانی صوبے سیستان وبلوچستان کی سرحدیں پاکستان کے بلوچستان کے اضلاع گوادر، کیچ، پنجگور، واشک اورچاغی سے ملتی ہے اورسرحد کے دونوں پاربلوچ آباد ہیں جن کے ہزاروں خاندان سرحد کی وجہ سے تقسیم ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی سرحدی حدود طے پانے کے بعد دونوں ملکوں نے 1956 میں سرحد کے آرپار آنے جانے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت پاکستانی بلوچستان کے سرحدی اضلاع کے ایسے لوگوں کو سیستان وبلوچستان جانے کے لیے خصوصی سفری اجازت نامے جاری کیے گئے تھے جن کے خاندان سرحدوں کی نشان دہی کی وجہ سے منقسم ہو گئے تھے۔ ان سفرناموں کو مقامی طورپر 'راہداری' کہاجاتاہے۔
معاہدے کے تحت راہداری حاصل کرنے والے بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے بلوچ ایران کے صوبہ سیستان وبلوچستان میں 60 کلومیٹر تک سفر کرسکتے ہیں جب کہ ایرانی سیستان وبلوچستان کے بلوچ بھی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آسکتے ہیں۔
البتہ ایرانی حکام چاغی اور واشُک کے اضلاع میں رہنے والے منقسم خاندانوں کو خصوصی اجازت ناموں پر ایران میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے جب کہ گوادر، کیچ اور پنجگور کے رہنے والے لوگ یہ اجازت نامے استعمال کر کے ماضی کی طرح سرحد کے آرپار آ جا رہے ہیں۔
کالعدم بلوچ تنظیموں کے ایران میں خفیہ ٹھکانوں کے دعوے
قانون نافذ کرنے والے ادارے اورسیکیورٹی ماہرین کاکہناہے کہ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے سرحد پار سیستان وبلوچستان میں بلوچ کمیونٹی کی موجودگی اورطویل سرحد کافائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اپنے ٹھکانے قائم کر لیے ہیں۔
کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی افسر کے مطابق ڈاکٹراللہ نذر کی بلوچ لبریشن فرنٹ اوربشیرزیب کی بلوچ لبریشن آرمی نامی تنظیموں سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے ایران کے سیستان وبلوچستان صوبے کی سرحدی حدود میں ٹھکانے موجود ہیں۔
ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے کی ممانعت کی وجہ سے نام نہ شائع کرنے کی بنیاد پر انہوں نے وائس آف امریکہ کوبتایاکہ بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے سربراہ گلزار امام عرف شمبے کی حالیہ گرفتاری کالعدم بلوچ تنظیموں کی ایران کی سرزمین پرموجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔
گلزار امام کو گزشتہ برس ستمبر کے وسط میں ایران سے ترکیہ سفر کرتے وقت ترکیہ حکومت کی مدد سے گرفتار کیا گیاتھا۔
کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے معاملات سے باخبر پنجگورکے ایک سیاسی کارکن مدد بلوچ کے مطابق اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد بی ایل ایف اوربی ایل اے کے متعدد کمانڈروں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر افغانستان چھوڑ کر ایران منتقل ہوگئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کے افغانستان پرقبضے کے بعد پاکستان کے لیے کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف افغانستان میں کارروائی کرنا آسان ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بی ایل اے کے ایک دھڑے کے سربراہ اسلم بلوچ عرف اچھو اپنے چار ساتھیوں سمیت قندھار کے پوش علاقے عینومینا میں ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔
حکومتِ پاکستان نے اسلم بلوچ کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی اور وہ نومبر 2018 کے اواخر میں کراچی میں چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر مقدمات میں نامزد تھے۔
ایرانی شدت پسند تنظیموں کی پاکستان میں پناہ گاہوں کا الزام
ایران کی حکومت بھی پاکستان پر دباؤ ڈالتی رہتی ہے کہ وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان، خصوصا مکران ریجن میں جیش العدل اور'مزاران گمنام بلوچستان' جیسی ایرانی بلوچ سنی تنظیموں کے ٹھکانے ختم کرے۔
مذکورہ دونوں تنظیمیں ایران کے صوبہ سیستان وبلوچستان میں کئی سالوں سے فعال ہیں۔
جیش العدل نے گزشتہ چند سالوں میں نہ صرف ایرانی سرحدی چوکیوں پر متعدد حملے کیے ہیں بلکہ اکتوبر 2018 میں اس کے ارکان نے پاکستان کے شہر چاغی سے متصل لولکدان نامی ایرانی سرحدی چوکی سے 12 ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا بھی کر لیا تھا۔
جیش العدل کے ایک اہم رہنما اورایرانی حکومت کومطلوب ملا عمر بلوچ اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ نومبر 2020 میں بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی قانون نافذکرنے والے اداروں کے ہاتھوں ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے۔
جیش العدل کے ترجمان حسین بلوچ نے گزشتہ برس نومبر میں 'مڈ اسٹون سینٹر فار انٹرنیشنل افیئرز' نامی ایک برطانوی سیکیورٹی تھنک ٹینک کوانٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد ملک سے فرار ہونے والے بلوچ علیحدگی پسندگروہوں کو ایرانی حکومت اورسپاہِ پاسداران انقلاب اسلامی نامی ایرانی سیکیورٹی ادارے نے اپنی سرزمین پرپناہ دے رکھی ہے۔
انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیاتھا کہ اس تحفظ کے بدلے میں ایرانی حکومت بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچستان ری پبلکن آرمی جیسی پاکستانی تنظیموں کو ایرانی سنی بلوچ گروپوں کے رہنماؤں اور اراکین کو قتل کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے انٹرویو کے دوران جون 2021 میں ایرانی سیکیورٹی فورسز کا کالعدم بلوچ تنظیموں کے ساتھ مشترکہ آپریشن کا بھی ذکر کیا جس میں جیش العدل کے ٹھکانے کو تباہ کیا گیا تھا۔ البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ یہ ٹھکانہ پاکستان میں تھا یا ایران میں۔
پاک ایران سرحد پرباڑ
پاکستان اورایران کے درمیان سرحد ایک دشوار گزار سرحد ہے جس کا فائدہ دونوں ملکوں کے شدت پسندوں گروہوں کے ساتھ ساتھ اسمگلرز کو بھی ہوتا ہے۔
دونوں ممالک اپنے طورپرشدت پسندی اوراسمگلنگ کو روکنے کے لیے کئی سالوں سے سرحد پرباڑ لگانے کی کوششیں کررہے ہیں۔
اپریل 2019 میں ضلع گوادر کے علاقے اورماڑہ میں کوسٹل ہائی وے پر ایئرفورس، نیوی اور کوسٹ گارڈ کے 14اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر ہلاک کیے جانے کے واقعے کے بعد پاکستان نے ایران کی سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کی حالیہ تفصیلات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔البتہ پچھلے سال مارچ میں اس وقت کے وزیرداخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھاکہ باڑ لگانے کا کام 85 فی صد تک مکمل ہوچکاہے اور 2023 کے آخر تک یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔