اپنے بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں بھی "چکنے چپڑے نعرے لگانے والے حملہ آوروں کو قبول نہیں کیا تھا اور انہیں دنیا کے نقشے سے مٹادیا تھا"۔
واشنگٹن —
افغانستان کے طالبان نے افغان عوام پر زور دیا ہے کہ وہ اسی طرح متحد ہوکر امریکہ کو اپنے ملک سے نکال دیں جس طرح انہوں نے سوویت فوجوں کو نکالا تھا۔
افغانستان سے سوویت یونین کے فوجی انخلا کے 25 سال مکمل ہونے پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ آج امریکہ اسی بدقسمتی کا سامنا کرنے کے بعد افغانستان سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے جس سے سوویت یونین دوچار ہوا تھا۔
طالبان ترجمان قاری یوسف احمدی کی جانب سے مغربی ذرائع ابلاغ کو بذریعہ ای میل بھیجے جانے والے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اماراتِ اسلامیہ افغانستان' اپنے عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ "آج کے غاصبوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو انہوں نے ماضی کے حملہ آوروں کے ساتھ کیا تھا"۔
خیال رہے کہ طالبان اپنی حکومت کو 'اماراتِ اسلامیہ' کہا کرتے تھے جو 1996ء سے 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے سے قبل تک برسرِ اقتدار تھی۔
پچیس سال قبل 15 فروری 1989ء کو سوویت یونین کا آخری فوجی دستے بھی شمالی افغانستان کو اس وقت کے سوویت یونین سے ملانے والا پل پار کرگیا تھا جس کے بعد افغانستان پر سے سوویت یونین کا ایک دہائی طویل فوجی قبضہ اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔
افغانستان سے سوویت فوجیوں کا انخلا جنیوا میں طے پانے والے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت عمل میں آیا تھا۔ دس سال سے زائد عرصہ جاری رہنے والی افغان جنگ میں سوویت فوجوں کی بدترین شکست کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔
افغان عوام 15 فروری کو قومی دن کے طور پر مناتے ہیں اور اس روز ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
ہفتے کو جاری کیے جانے والے اپنے بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں بھی "خوبصورت اور چکنے چپڑے نعرے لگانے والے حملہ آوروں کو قبول نہیں کیا تھا اور انہیں دنیا کے نقشے سے مٹادیا تھا"۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر خدا کی مرضی ہوئی تو امریکہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوگا۔
طالبان کا یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ افغان صدر حامد کرزئی پر دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پہ دستخط کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔
مجوزہ معاہدے کے تحت 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں ٹہر سکیں گے جو وہاں مقامی فورسز کی تربیت اور معاونت کے فرائض انجام دیں گے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اصرار ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی کی صورتِ حال اور طالبان کی واپسی کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ 2014ء کے طے شدہ انخلا کے بعد بھی نیٹو افواج کے کچھ دستے افغانستان میں موجود رہیں۔
تاہم مغربی ممالک کے تمام تر دباؤ کے باوجود صدر کرزئی مجوزہ معاہدے پر دستخط سے انکاری ہیں اور انہوں نے معاہدے کی منظوری کا فیصلہ نئے آنے والے صدر پر چھوڑدیا ہے جو اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے بعد اقتدار سنبھالیں گے۔
افغانستان سے سوویت یونین کے فوجی انخلا کے 25 سال مکمل ہونے پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ آج امریکہ اسی بدقسمتی کا سامنا کرنے کے بعد افغانستان سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے جس سے سوویت یونین دوچار ہوا تھا۔
طالبان ترجمان قاری یوسف احمدی کی جانب سے مغربی ذرائع ابلاغ کو بذریعہ ای میل بھیجے جانے والے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اماراتِ اسلامیہ افغانستان' اپنے عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ "آج کے غاصبوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو انہوں نے ماضی کے حملہ آوروں کے ساتھ کیا تھا"۔
خیال رہے کہ طالبان اپنی حکومت کو 'اماراتِ اسلامیہ' کہا کرتے تھے جو 1996ء سے 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے سے قبل تک برسرِ اقتدار تھی۔
پچیس سال قبل 15 فروری 1989ء کو سوویت یونین کا آخری فوجی دستے بھی شمالی افغانستان کو اس وقت کے سوویت یونین سے ملانے والا پل پار کرگیا تھا جس کے بعد افغانستان پر سے سوویت یونین کا ایک دہائی طویل فوجی قبضہ اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔
افغانستان سے سوویت فوجیوں کا انخلا جنیوا میں طے پانے والے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت عمل میں آیا تھا۔ دس سال سے زائد عرصہ جاری رہنے والی افغان جنگ میں سوویت فوجوں کی بدترین شکست کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔
افغان عوام 15 فروری کو قومی دن کے طور پر مناتے ہیں اور اس روز ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
ہفتے کو جاری کیے جانے والے اپنے بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں بھی "خوبصورت اور چکنے چپڑے نعرے لگانے والے حملہ آوروں کو قبول نہیں کیا تھا اور انہیں دنیا کے نقشے سے مٹادیا تھا"۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر خدا کی مرضی ہوئی تو امریکہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوگا۔
طالبان کا یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ افغان صدر حامد کرزئی پر دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پہ دستخط کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔
مجوزہ معاہدے کے تحت 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں ٹہر سکیں گے جو وہاں مقامی فورسز کی تربیت اور معاونت کے فرائض انجام دیں گے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اصرار ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی کی صورتِ حال اور طالبان کی واپسی کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ 2014ء کے طے شدہ انخلا کے بعد بھی نیٹو افواج کے کچھ دستے افغانستان میں موجود رہیں۔
تاہم مغربی ممالک کے تمام تر دباؤ کے باوجود صدر کرزئی مجوزہ معاہدے پر دستخط سے انکاری ہیں اور انہوں نے معاہدے کی منظوری کا فیصلہ نئے آنے والے صدر پر چھوڑدیا ہے جو اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے بعد اقتدار سنبھالیں گے۔