افغانستان میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں لیکن طالبان ان انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ طالبان نے الیکشن کے دوران حملوں کا سلسلہ تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
افغان حکومت اليکشن کو ہی افغانستان کی ترقی کا ضامن قرار ديتی ہے۔ لیکن طالبان اس سے متفق نہیں۔
’وائس آف امريکہ‘ سے بات کرتے ہوئے طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان محمّد سہيل شاہين نے کہا ہے کہ 2001 میں جب امریکہ اور اتحادی افواج نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو اليکشن کے ذریعے ہی غير ملکی تسلّط کو دوام دیا گیا تھا۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ ’’ہم ان انتخابات کو بالکل بھی صحيح نہیں سمجھتے، جب ملک غير ملکی تسلّط سے آزاد ہوگا تب افغان عوام خود فيصلہ کريں گے کہ وہ کس طرز کی حکومت چاہتے ہيں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پھر ہم بھی افغان عوام کا فیصلہ ماننے کے پابند ہوں گے۔
خیال رہے کہ افغانستان ميں 28 ستمبر کو صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں، جس کے لیے کئی امیدوار مد مقابل ہیں۔ ليکن اصل مقابلہ موجودہ صدر اشرف غنی، چيف ايگزيکٹو عبداللہ عبداللہ اور کسی حد تک گلبدین حکمت یار کے درمیان ہے۔
طالبان نے انتخابات کو تسلیم نہ کرتے ہوئے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ لیں۔ حال ہی میں افغان صدر کی انتخابی ريلی پر ایک حملہ بھی ہوا تھا جس کی ذمّہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔
افغانستان کے صدارتی انتخابات ایسے وقت میں ہونے والے ہیں جب امريکہ اور طالبان کے درميان ہونے والے امن مذاکرات منسوخ ہو چکے ہیں۔
امريکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ اس وقت مذاکرات کو ’مردہ‘ قرار دیا تھا جب طالبان اور امریکہ دونوں کے بقول، تمام امور طے پا گئے تھے۔ امن مذاکرات کے ساتھ ساتھ طالبان کی جانب سے افغانستان میں حملوں کا سلسلہ جاری تھا جس کے بعد امریکہ نے مذاکرات منسوخ کر دیے تھے۔
مذاکرات کی اچانک منسوخی پر طالبان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے مابین سب کچھ طے ہونے کے بعد مذاکرات کو ختم کرنا انتہائی حيران کن تھا۔
طالبان کے ترجمان سہيل شاہين بھی افغان امن مذاکرات کا حصہ تھے۔ اُن کے بقول، صدر ٹرمپ کا يہ عمل صلح کے خلاف تھا۔
مذاکرات کی منسوخی سے متعلق بات کرتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’’دونوں فريق امن معاہدے کی تمام شقوں پر متفق ہو چکے تھے۔ معاہدے کی ايک کاپی ہمارے پاس، ايک امريکہ کے خصوصی ايلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خليل زاد کے پاس اور ايک قطر کی حکومت کو مہيّا کر دی گئی تھی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ امن معاہدے کے لیے قطر ميں ايک تقريب ہونی تھی جس ميں دنيا کے تقريباً 23 ملکوں کے وزرائے خارجہ کو مدعو کیا جاتا۔ اس کے بعد ستمبر کی 23 تاريخ کو امن مذاکرات کے تسلسل ميں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔
طالبان اور امريکہ کے درميان امن معاہدے کی مکمل تفصيلات تو سامنے نہیں آسکی ہیں۔ ليکن سہيل شاہين کے مطابق، اس معاہدے کے اہم نکات میں افغانستان سے امريکی اور اتحادی افواج کا مکمل انخلا، افغانستان کی زمين امريکہ اور اس کے اتحاديوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا اور بین الافغان مذاکرات شروع کرنا شامل تھے۔
اگرچہ اس وقت امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، لیکن افغان طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ اگر امريکہ مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کرتا اور امن پر جنگ کو ترجيح ديتا ہے تو پھر طالبان بھی جنگ کے لیے تيار ہيں۔
ایک سال تک چلنے والے مذاکراتی عمل ميں امريکہ کی جانب سے کچھ خواتين نے بھی اہم کردار ادا کيا جس ميں اسسٹنٹ سيکريٹری آف اسٹيٹ ايلس ويلز کا کردار نماياں تھا۔ طالبان نے بھی ان کے کام کو سراہا۔
سہيل شاہين کے مطابق، ایلس ویلز سفارتی آداب اور علاقائی ثقافت پر مکمل دسترس رکھتی ہيں۔ البتہ ان کے خیالات میں مغربیت کی جھلک تھی۔
سہيل شاہين نے افغانستان میں امن کے لیے زلمے خلیل زاد کے کردار کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ امريکی نمائندۂ خصوصی کا کردار قابل تعریف ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلیل زاد صحيح معنوں ميں افغان روايات سے واقف تھے۔ يہی وجہ تھی کہ امن مذاکرات بغير کسی تعطل کے خوش گوار ماحول ميں آگے بڑھے۔
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے دوران سوشل ميڈيا پر یہ پروپيگنڈا بھی عام تھا کہ طالبان امريکہ کے ساتھ امن مذاکرات ميں غير سنجيدہ تھے۔
امریکی نائب سیکریٹری خارجہ ايلس ويلز نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان کا مزاج غير مستقل تھا اور شاید يہی وجہ تھی کہ جس کے باعث مذاکرات منسوخ ہوئے۔
البتہ سہيل شاہين کا کہنا ہے کہ ہم تو اب بھی مذاکرات کے خواہاں ہيں۔ لیکن امريکی اٹھ کر چلے گئے ہيں۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات برابری کی سطح پر کیے کيوں کہ، اُن کے بقول، طالبان ہی افغانستان کی اصل قوت ہيں اور 70 فی صد علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
بین الافغان مذاکرات سے متعلق سہیل شاہین نے کہا کہ انٹرا افغان بات چيت ميں ہمارا مؤقف افغانستان ميں اسلامی نظام کے نفاذ پر مرکوز ہو گا، جس ميں تمام مسالک اور فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے عقائد کا احترام کيا جائے گا۔
سہيل شاہين کے بقول، ’’بد قسمتی سے جب بھی شرعی قوانين کی بات ہو تو مغرب اسے انتہا پسندی کے ساتھ جوڑ ديتا ہے يا انتہا پسندی کی نظر سے ديکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دراصل نظامِ اسلام انصاف اور اقوام کی خوش حالی کی بات کرتا ہے۔ وہ تمام تر انسانی حقوق جس ميں آزادیٔ اظہار بھی شامل ہے، اسلام اس کی ضمانت ديتا ہے۔
SEE ALSO: اسلام کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کا ازالہ ضروری ہے: عمران خانعالمی برادری کو افغانستان ميں اگنے والی افيون پر تشويش ہے۔ طالبان کی بیشتر فنڈنگ کا ذريعہ اسی کاروبار کو سمجھا جاتا ہے۔ ليکن، طالبان اس سے انکار کرتے ہيں اور اس کی ذمہ داری افغان حکومت پر ڈالتے ہيں۔
طالبان کے مطابق، جب قندھار اور ہلمند ميں مغربی فوجيں تعينات ہيں تو پھر افیون کيسے بيرون ملک اسمگل ہوتی ہے؟
امريکہ کی جانب سے مذاکرات کی منسوخی کے بعد طالبان نے مختلف ملکوں کے دورے بھی کیے ہیں جن میں چين، روس اور ايران کے دورے شامل ہيں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ان ممالک کو اپنے مؤقف سے آگاہ کر رہے ہيں کہ تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ امن مذاکرات طالبان نے ختم نہیں کیے۔
یہ قياس آرائياں بھی کی جا رہی ہيں کہ امريکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ لیکن سہیل شاہین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ماضی ميں مختلف دھڑے تھے جو ايک دوسرے پر اپنی حاکميت صادر کرنا چاہتے تھے۔ اب ايسا نہیں ہے۔ اسی لیے ہم باہمی افغان مذاکرات کی بات کرتے ہيں، جس کے مطابق تمام افغانوں کے اتفاق سے ايک حکومت اور مربوط نظام بنا سکیں۔