افغانستان بھر میں دو سال قبل طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے کئی شہروں اور دیہات میں سول تنازعات حل کرنے کے لیے ایسے افراد کو با اختیار بنایا گیا ہے جن کے پاس کوئی باقاعدہ قانونی تربیت نہیں ہے لیکن وہ طالبان گروپ میں رکنیت اور آٹھویں صدی کے اسلامی فقہ پر محض ابتدائی گرفت کے باوجود بڑے اختیار کے حامل ہیں۔
اس عدالتی نظام کے تحت بیشتر مقدمات کو تیزی سے نمٹا دیا جاتا ہے اور اکثر کا تو ٹریبونل کے سامنے پہلی ہی پیشی پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔ مدعی اور مدعا علیہ مختصر طور پر اپنا بیان دیتے ہیں اور فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔
ناقدین کے مطابق استغاثہ کی جانب سے انتہائی سنگین فوجداری مقدمات میں بھی تحقیقات اور حقائق کو جیوری یا عدالت میں پیش نہ کرنے کا مطلب ہے کہ فیصلے منصفانہ نہیں ہیں۔
طالبان نے 2021 میں افغانستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر کو ختم کر دیا اور اسے ایک غیر ضروری بیوروکریٹک طریق کار سمجھا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے بدعنوانی اور نااہلی کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔
طالبان کے ڈپٹی چیف جسٹس عبدالمالک حقانی کے مطابق اس نئے نظام کے تحت مقدمے کے ہر پہلو کا احاطہ سرکاری وکیلوں کی شمولیت کے بغیر جج کی موجودگی میں ہونا چاہیے۔ ان میں مقدمات کی تفویض سے لے کر فرد جرم عائد کرنا اور سزا سنانےکا عمل شامل ہے۔
حقانی نے اس ہفتے ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ"ایک جج کے فیصلے کی بنیاد استغاثہ کی تحقیقات پر نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ ہمارے شرعی اصول ہیں۔ "
افغانستان کے سابق اٹارنی جنرل فرید حمیدی اب امریکہ میں مقیم ہیں اور انہوں نے اٹارنی جنرل کے دفتر کی تحلیل کو ملک میں انصاف کے لیے ایک جان لیوا دھچکا قرار دیا ہے ۔
حمیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ " ایک پراسیکیوٹر کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی مقدمے کا فیصلہ سنانے سے پہلے تمام حقائق جاننے میں ججوں کی مدد کرے۔یہ پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر قبول شدہ اصول ہے اور جس کا مقصد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔"
جب طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے نہ صرف اٹارنی جنرل کے دفتر کو ختم کر دیا بلکہ استغاثہ کے ان کے سابق ارکان پر جبر روا رکھا جنہوں نے ہزاروں طالبان باغیوں کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کئے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے جنوری میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ طالبان نے 2021 میں افغانستان بھر کی جیلوں سے جن ہزاروں قیدیوں کو رہا کیا انہوں نےاستغاثہ اور ججوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کوششوں کے نتیجے میں درجن بھر سے زیادہ سابق پراسیکیوٹرز ہلاک ہو گئے ہیں۔
SEE ALSO: طالبان حکومت کا کیمروں کی تنصیب کا منصوبہ، انسانی حقوق کے کارکنوں کو تشویشانصاف کی تیز رفتار فراہمی
طالبان کے نظام انصاف کو انصاف کے مروجہ نظام سے الگ کرنےکا مقصد انصاف کی تیز رفتار فراہمی کو قرار دیا گیا ہے۔طالبان کے جج صاحبان نے بیوروکریٹک نظام کے سرخ فیتے کی پابندی کے بغیر گزشتہ دو برسوں میں دو لاکھ سے زیادہ مقدمات کو نمٹایاہے جن میں ہزاروں ایسے مقدمات بھی شامل ہیں جو گزشتہ حکومت کی عدلیہ میں طے ہونے والے تھے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حقیقی انصاف کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ فیصلوں میں جلد بازی نہ کی جائے۔ سابق افغان اٹارنی جنرل حمیدی کہتے ہیں کہ طالبان ' تیز رفتار ی سے فیصلے کرتے ہوئے انصاف کو قربان کر رہے ہیں۔"
افغانستان میں بعض لوگ جو سابق افغان حکومت کی عدالتوں کی سست روی اور افسر شاہی کے بارے میں اکثر شکایت کرتے تھے، اب وہ طالبان کے فوری انصاف کی تعریف کرتے ہیں۔
امریکہ کے ولیم اینڈ میری لا اسکول میں قانون کے پروفیسر نیل ڈیونز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ" بعض اوقات انصاف میں تاخیردراصل انصاف سے انکار کے مترادف ہوتا ہے اور بعض اوقات سب سے اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ مرحلہ وار آگے بڑھتے ہوئے بہتر معلومات کی بنیاد پر نتیجہ حاصل کیا جائے۔"
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے طالبان کے فوجداری انصاف کے نظام کو وحشیانہ طور پر سخت گیر قرار دیا ہے۔
اگر چہ طالبان سر عام دی جانے والی جسمانی سزا کا دفاع کرتے ہوئے اسے اسلامی قانون کے مطابق قرار دیتے ہیں تاہم اقوام متحدہ نے اسے غیر انسانی اورایذا رسانی کے خلاف بین الاقوامی کنونشنز کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
طالبان عدالتی احکامات کے موثر نفاذ کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ، جو بظاہر سابقہ افغان حکومت کی مبینہ کوتاہیوں کے بر عکس نظر آتا ہے جب وہ طاقتور افراد کے لیے انصاف کے نفاذ میں ناکام رہتے تھے ۔
نومبر 2015 میں ایک عجیب و غریب واقعہ اس کی مثال ہے ۔ مالی جرائم کے لیے جیل کی سزا پانے والے ایک بینکرخلیل اللہ فیروزی وزارت شہری ترقی کے ساتھ ملٹی ملین ڈالر کے رئیل اسٹیٹ معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جیل سے باہر گئے تھے۔
پھر نومبر 2016 میں ایک اورواقعہ رپورٹ ہواتھا جس کے مطابق کابل میں ایک سابق نائب صدر پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے ایک قبائلی حریف کو حراست میں لیااور اس کے ساتھ زیادتی کی لیکن اس کے لیے کوئی قانونی یا تعزیری اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
SEE ALSO: طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے خواتین کے حقوق کی پاسداری اہم ہے: اقوام متحدہمطلق العنان بادشاہت
طالبان افغانستان کے آئین کو معطل کر چکے ہیں جس کے تحت عدلیہ کی سیاسی اور انتظامی آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے۔اب ججوں کی تقرری، ان کے اختیارات اور عدالتی احتساب کے بارے میں کوئی تحریری دستاویز بھی موجود نہیں ہے۔
طالبان کے ڈپٹی چیف جسٹس حقانی نے کہا ہے کہ ’’ ہم صرف اپنے لیڈر کو جوابدہ ہیں۔ سلطان اور بادشاہ کے حکام سے متعلق معاملات بھی ہمارے لیڈر کو بھیجے جاتے ہیں۔"طالبان کے’ پراسرار ‘رہنما کے اختیارات کی کوئی حدہی نہیں ہے۔
حقانی کے مطابق عدلیہ صرف سلطان کے سامنے جوابدہ ہے اور یہی اس کی اندرونی اور بیرونی مداخلت سے آزادی کا ثبوت ہے۔
طالبان عشروں تک گزشتہ افغان حکومت کے خلاف نبرد آزما رہے اور ان کا یہ الزام تھا کہ یہ ایک کٹھ پتلی حکومت ہے جو غیر ملکی مفادات کی خدمت کرتی ہے۔
اگرچہ طالبان اب افغانستان پر حکومت کرتے ہوئے مکمل آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم طالبان کو پاکستانی فوج کی پراکسی کے طور پر بیان کیا جاتا رہا ہے ۔ پاکستان اور طالبان دونوں ہی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
سابق اٹارنی جنرل حمیدی کہتے ہیں کہ ’’ ہر سرکاری ادارے کے اختیارات اور حدود کو کسی عوامی دستاویز یا آئین میں درج کرنا چاہیئے۔ اس کے بغیر عدلیہ کی آزادی کے کوئی حقیقی معنی نہیں ہیں۔‘‘
تحریری قوانین کی عدم موجودگی کے نتیجے میں ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے جس میں عدالتی فیصلوں کو اسلامی قوانین کی مختلف تشریحات کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس قانونی ابہام کے نتیجے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔ ان میں بغیر الزامات کے یا عدالتی سماعت کا حق نہ دیتے ہوئے افراد کو غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنااور ان پر تشدد کرنا شامل ہے۔
اسے ایک مثال کے ذریعے واضح کیا جا سکتا ہے کہ طالبان کی انٹیلی جنس ایجنسی نے غیر معینہ مدت کے لیے لوگوں کوایسے الزامات کے تحت حراست میں رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا جن کا آزاد انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق کوئی قانونی جواز نہیں ۔
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم کارکن مطیع اللہ تقریباً چھ ماہ سے بغیر کسی الزام کے طالبان کی حراست میں ہیں۔
سابق افغان حکومت کے پاس امریکہ کی حمایت سے ایک ترقی پسند آئین موجود تھا جو اگرچہ علامتی ہی تھا اور اسے خلاف ورزیوں کے الزامات کا سامنا تھا، تاہم وہ جنس سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کا حامل تھا اور جس میں جمہوری طریقے سے اقتدار کی تقسیم کی کوشش کی گئی تھی۔
ولیم اینڈ میری لا اسکول میں قانون کے پروفیسر نیل ڈیونز کا کہنا ہے کہ ’’آئین کی اچھائی کی بنیاد متعلقہ افراد کی تشریح اور اس کے نفاذ پر ہے۔آئین کا ایک مقصد یہ ہے کہ یہ عام طور پر حکومت کے اختیارات کو محدود کرتا ہے اور انفرادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ تاہم، ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اس کا احترام کیا جائے۔‘‘
طالبان کی حکومت کے دیگرشعبوں کی طرح خواتین کو عدلیہ میں بھی کام سے باہر رکھا گیا ہے اور خواتین کے مقدمات کو حل کرنے کے لیے کوئی خاتون جج موجود نہیں ہے۔
تاہم صنفی امتیاز پر مبنی دنیا کی واحد حکومت کہلانے والےطالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان کواس نظام سے بہتر انصاف فراہم کیا ہے جسے بین الاقوامی حمایت کے ساتھ بنایا گیا تھا۔