افغانستان میں طالبان کی حکومت نے اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں جاری انسانی بحران کے مقابلے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر اکھٹے کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان بلال کریمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بین الاقوامی کمیونیٹی کو امداد کی تقسیم کے عمل میں شفافیت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ترجمان نے افغانستان میں امداد کی تقسیم میں شفافیت کے فقدان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت امداد کی تقسیم کے پروگرام میں ان لوگوں کو ترجیج دے رہی ہے جنہیں امداد کی فوری ضرورت ہے۔
انسانی امداد سے متعلق اقوام متحدہ کے اداروں نے منگل کے روز انتباہ کیا تھا کہ افغانستان میں سخت سردیوں کا موسم شروع ہو رہا ہے اور شدید موسمی حالات پہلے ہی سے ملک بھر میں لاکھوں افغان باشندوں کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجیریک نے اعلان کیا ہے کہ انسانی بھلائی کے امور پر تعاون سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر کے تخمینوں کی بنیاد پر فی الحال انہوں نے افغانستان میں جاری انسانی بحران کے مقابلے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر اکھٹے کیے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے گزشتہ ماہ اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ اور امدادی سرگرمیوں سے منسلک ان کے شراکت دار افغانستان بھر میں لگ بھگ 70 لاکھ باشندوں تک انسانی ہمدردی کی امداد پہنچا چکے ہیں۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایک ایسے موقع پر جب کہ سخت موسمی حالات جاری رہنے کا امکان ہے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے ضرورت مندوں تک امداد پہنچانے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔
طالبان کی فوج میں خودکش بمبار بٹالین قائم کرنے کی تردید
ایک اور خبر کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان رپورٹس کو مسترد کر دیا ہے کہ طالبان نے اپنے نئے فوجی ڈھانچے میں خودکش بمباروں کی ایک بٹالین بھی قائم کی ہے۔ تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ خودکش بمباروں کو طالبان کی اسپیشل فورسز میں بھرتی کیا جائے گا۔
کچھ میڈیا ذرائع نے ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے کہا تھا کہ خودکش بمباروں کی بٹالین سپیشل فورسز کا حصہ ہو گی اور وہ وزارت دفاع کے ماتحت کام کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بٹالین میں شامل مجاہدین، فوج میں بھی ہیں اور انہیں اسپیشل فورسز میں بھی شامل کیا جائے گا، اور وہ سب وزارت دفاع کی نگرانی میں کام کریں گے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ریڈیو فری یورپ آر ایل کو بتایا کہ یہ فورسز ایک خاص تعداد میں قائم کی جائیں گی اور انہیں خصوصی کارروائیوں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔