افغانستان میں جہاں 2022 کے دوران طالبان نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی تو وہیں ملک بھر میں سیکیورٹی صورتِ حال کی بھی کڑی نگرانی کی۔ لیکن ساتھ ہی طالبان ، خواتین کی تعلیم اور اُنہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں ناکامی کے باعث عالمی حمایت اور پابندیوں کے حوالے سے ریلیف حاصل کرنے سے قاصر رہے۔
اگست 2021 میں امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کابل کا کنٹرول سنبھالنے والے افغان طالبان کی دو دہائیوں بعد اقتدار میں واپسی ہوئی تھی۔
طالبان دورِ حکومت کے 16 ماہ کے دوران معاشی تباہی کے خدشات، قحط, غیر ملکی امداد کی معطلی اور امریکی امداد کی بندش کے باعث لوگوں کی نقل مکانی میں اب کچھ کمی آئی ہے۔
افغان شہریوں کی مشکلات میں کمی کی بڑی وجہ صدر جو بائیڈن کی طرف سے امریکی پابندیوں میں کچھ استثنٰا اور مغربی اتحادیوں کی طرف سے ہنگامی انسانی امداد کی فراہمی بھی ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان کے کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن، تشدد میں کمی اور پڑوسی ملک پاکستان کو کوئلے کی برآمدات میں غیر معمولی اضافے نے بھی افغانستان کی معاشی مشکلات کو کم کیا ہے۔
لیکن سال 2022 کے دوران افغان طالبان کو انسانی حقوق اور بالخصوص خواتین کی تعلیم پر پابندیاں لگانے کے باعث عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
خواتین کے حوالے سے پابندیاں
جنوری 2022 میں ناروے نے طالبان اور یورپی مندوبین کے درمیان انسانی حقوق سے متعلق بات چیت کا اہتمام کیا۔ اس کے انعقاد سے امیدیں پیدا ہو گئیں کہ طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ جن میں خواتین کی آزادی اور مغربی ملکوں کی جانب سے امداد کے بدلے لڑکیوں کے اسکول کھول دیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم اس ملاقات کے بعد ہونے والی پیش رفت نے طالبان اور بیرونی دنیا کے درمیان پہلے سے ہی نازک تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا۔
طالبان حکومت نے بار بار کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خواتین کی آزادیوں پر قدغنیں لگائیں۔
طالبان نے مارچ میں لڑکیوں کے سکینڈری اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا اور جب بچیاں اسکول پہنچیں تو اُنہیں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ طالبان حلقوں کے مطابق لڑکیوں کے اسکول نہ کھولنے کا فیصلہ سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر کیا گیا۔
ملک میں بر سر اقتدار حکمران ،خواتین پر پابندیاں سخت کرتے رہے، عوامی مقامات پر خواتین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی جن میں پارکس اور جمز شامل تھے۔
خواتین کے لیے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنا لازمی قرار دیا گیا اور طبی سہولیات کے حصول اور ایک خاص فاصلے سے زیادہ سفر کرنے کے لیے مرد محافظ کی موجودگی لازمی کر دی گئی۔
سرکاری نوکریاں کرنے والی اکثریتی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ یا تو اپنے گھروں میں قید ہو گئیں ہیں یا بے روز گار۔
اقوام متحدہ اور مغربی حکومتیں خواتین کے حقوق سلب کیے جانے کو انسانی بحران قرار دیتی رہیں اور ان پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوب تھامس ویسٹ کا دسمبر میں طالبان کے وزیر دفاع محمد یعقوب سے دبئی میں ہونے والی ملاقات میں کہنا تھا کہ افغانستان کے معاشی اور سماجی استحکام اور طالبان کی ملکی اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کا انحصار افغانستان کی ماؤں اور بیٹیوں کے ساتھ ان کے سلوک پر ہے۔
طالبان نے ملک میں خدمات سر انجام دینے والے صحافیوں پر بھی پابندیاں عائد کیں جب کہ سول سوسائٹی کے کارکنان کے لیے بھی جگہ تیزی سے سکڑ رہی ہے۔
اسلامی شرعی سزاؤں کا نفاذ
طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ نے سال کے آخر میں طالبان کی عدالتوں کو حکم دیا کہ اسلامی سزائیں دینا شروع کریں۔ جس کے نتیجے میں درجنوں افغانوں کو سر عام کوڑے مارے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ سزائیں لوگوں سے بھرے اسپورٹس اسٹیڈیم میں دی گئیں۔
سرعام پھانسی
دسمبر میں طالبان نے قتل کے جرم میں ایک شخص کو سر عام پھانسی دی اور طالبان کے 1996 سے 2001 تک جاری رہنے والے دور اقتدار کی سزاؤں کو بحال کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان سزاؤں پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے شدید ردِ عمل ظاہر کیا گیا۔ تاہم طالبان نے اسے رد کر دیا اور اسے ان کے مذہبی عقیدے کی توہین قرار دیا۔
افغانستان کا مستقبل
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ سے منسلک مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ انہیں امید نہیں ہے کہ اگلے سال کے دوران بھی طالبان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان ہم آہنگی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی پالیسیاں مذہبی قدامت پرستوں کے ہاتھوں میں ہیں جن میں سپریم لیڈر ہبت اللہ بھی شامل ہیں جنہیں بر سر اقتدار گروپ میں فوقیت حاصل ہے۔
سابق افغان عہدیدار اور سیاسی مبصر طارق فرہادی کا کہنا ہے کہ طالبان رہنما شریعت کی سخت ترین تشریح کر رہے ہیں تا کہ تحریک کے دوران ایک نئے گروپ کی تشکیل روکی جا سکے۔