عام طور پر ووٹر جب ووٹ ڈالنے جاتا ہے تو وہ ملک کودرپیش مسائل پر کسی امیدوار کےمؤقف کو ضرور دھیان میں رکھتا ہے۔ لیکن، ایسا بھی ہوا ہے کہ ووٹر نے امیدوار کے قد کاٹھ کو دیکھ کر اُس کے حق میں ووٹ دیا ہو۔
ٹیکسس کی ٹیک یورنیورسٹی کے محققین کہتے ہیں کہ سیاسی لیڈروں کے لیے ووٹروں کی ترجیحات میں قد کی اہمیت غالباً غاروں کے دور سے چلی آرہی ہے۔ پولٹیکل سائنس کے پروفیسر Gregg Murrayاور اُن کے گریجویٹ طالب علم ڈیوڈ شمٹز کی تحقیق سوشل سائنس سہماہی رسالے میں شائع ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سانپوں سے ڈرنے کی عادت اور مرغن کھانوں کا چسکا غالباً اُسی دور سے چلا آرہا ہے جب سانپ انسان کے لیے ایک عام خطرہ تھے اور یہ بات غیر یقینی تھی کہ انسان کے جسم میں کتنے حرارے جا رہے ہیں۔
اِن محققین نے قدیم معاشروں میں بھاری بھرکم قبائلی سردار کی قیادت کی طرف توجہ دلائی ہے اور اِس طرف بھی کہ جانوروں کی بادشاہت میں جسمانی طاقت کس طرح اثر انداز ہوتی تھی اور اُنھوں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ 1789ء اور 2008ء کے درمیانی عرصے میں 58فی صد امریکی صدارتی انتخابات نسبتاً طویل قامت امیدواروں نے جیتے ہیں۔
اِن محققین نے 267امریکی غیر ملکی طلبہ سےایک خاکہ کھینچنے کو کہا جو اُن کی دانست میں ایک عام شہری کی نمائندگی کرتا ہو اور ایسا خاکہ بھی جو ایک آئیڈیل قومی لیڈرکا ہو۔ اِن سے پھر یہ بھی کہا گیا کہ وہ دونوں خاکے ایک ساتھ بنائیں۔
چناچہ، 64فی صد نے جو خاکے بنائے اُن میں عام آدمی کے مقابلے میں لیڈر کا قد لمبا تھا۔ پھر اُن سے کہا گیا کہ وہ اپنے آپ کو لیڈروں اور امکانی سیاسی امیدواروں کی حیثیت سے بھی جانچیں۔
رپورٹ میں اِس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ صدر براک اوباما کا قد چھ فٹ ایک انچ ہے۔ 2008ء میں اُن کے مخالف امیدوار جان میکین کا قد اُن سے تین انچ کم تھا۔ لیکن 2012ء میں ہونے والےصدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے امکانی امیدواروں میں کم از کم دو، یعنی سابق گورنر رِک پیری اور مِٹ رامنی کی قامت یا تو براک اوباما کے برابرہے یا ذرا اُن سے زیادہ ہے۔