پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت سخت حفاظتی انتظامات میں راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی اور ماسوائے استغاثہ اور دفاع کے وکلاء کے کسی غیر متعلقہ شخص کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔
پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے قتل کا اعتراف کرنے والے ممتاز قادری کے وکیل شجاع الرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جج راجہ اخلاق نے اُن کے موکل پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے مقدمے کی آئندہ سماعت 26فروری کو کرنے کا حکم دیا ۔
اُنھوں نے بتایا کہ آئندہ پیشی پر استغاثہ کی طرف سے گواہ پیش کیے جائیں گے اور وہ قانون کے مطابق اپنے موکل کا دفاع کریں گے۔
عدالت کے احاطے کے باہر پیر کو ممتاز قادری کے چند درجن حامی بھی موجود تھے جنہوں نے اُس کے حق میں نعرے لگائے۔
سلمان تاثیر کو چار جنوری کو اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں ان کے سرکاری محافظ ممتاز قادری نے اس وقت گولیاں مار کرہلاک کردیا تھا جب وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ کھانا کھا کر گھر واپس جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔
قتل کے بعد قادری نے خود کو سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ اس نے گورنر کو توہین رسالت کے خلاف قانون میں تبدیلی کی حمایت کرنے پر قتل کیا۔
اس واقعے کے بعد ممتاز قادری کے حق میں ملک کے مختلف شہروں میں مذہبی تنظیموں کے کارکنوں نے ریلیاں نکالیں اور اس کے اس اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ وہ توہین رسالت قانون میں کسی طرح کی ترمیم سے گریز کرے۔ وزیر اعظم گیلانی سمیت وفاقی وزراء نے متعدد بار ناموس رسالت ایکٹ میں کسی بھی طرح کی ترمیم نہ کرنے کا اعلان کیا اورکہا کہ پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ شیری رحمن کی طرف سے اس اسلامی قانون میں ترمیم کے لیے جمع کرائے گئے بل کو بھی واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے ملک میں انتہا پسند رُجحانات میں اضافہ ہو گا۔