دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر کی' تلاشی'

بھارت میں انکم ٹیکس اہلکاروں نے نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کے نئی دہلی اور ممبئی کے دفاتر کی تلاشی لی ہے۔ یہ تلاشی ایسے وقت میں لی گئی ہے جب حال ہی میں گجرات فسادات کے حوالے سے بی بی سی نے ڈاکیومینٹری سیریز ریلیز کی تھی۔

یہ ڈاکیومینٹری 2002 میں گجرات فسادات اور اس وقت وہاں کے وزیرِ اعلٰی نریندر مودی کے مبینہ کردار کے گرد گھومتی ہے۔

بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق لگ بھگ 20 ٹیکس اہلکاروں نے منگل کو نئی دہلی میں بی بی سی کے دفتر اور ممبئی میں نشریاتی ادارے کے پروڈکشن یونٹ میں ریکارڈ کی چھان بین کی۔

بی بی سی نے کہا ہے کہ وہ محکمہ انکم ٹیکس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے اور اسے امید ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد حل ہو جائے گا۔

این ڈی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سےبتایا ہے کہ ٹیکس اہلکاروں نے بی بی سی کے دفاتر میں بین الاقوامی ادائیگیوں میں مبینہ ٹیکس گھپلوں کے الزامات پر 'سروے' کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکس اہلکاروں نے اہم دستاویزات کے علاوہ بی بی سی کے صحافیوں کے موبائل فونز اور لیپ ٹاپس بھی قبضے میں لیے ہیں۔یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ سروے مکمل ہونے تک بی بی سی کے دفاتر سیل رہیں گے جب کہ ملازمین کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کسی قسم کی تفصیلات شیئر نہ کریں۔

ٹیکس اہلکاروں نے بی بی سی کے شعبہ فنانس سے بیلنس شیٹ اور اکاؤنٹس کے حوالے سے کچھ معلومات طلب کی ہیں۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک سروے ہے تلاشی نہیں، لہذٰا یہ عمل مکمل ہونے کے بعد ملازمین کو فونز واپس کر دیے جائیں گے۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حوالے سے بی بی سی کی ڈاکیومینٹری 'انڈیا، دی مودی کوئسچن' گزشتہ ماہ نشر ہوئی تھی لیکن بھارت میں اسے عوامی پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا گیا تھا۔

بھارتی حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز 2021 کے تحت خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے یوٹیوب اور ٹوئٹر پر اس متنازع ڈاکیومینٹری کو پبلش کرنے والے لنکس بلاک کر دیے تھے۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور بعض طلبہ تنظیموں نے حکومت کے اس اقدام کو سینسر شپ قرار دیتے ہوئے مختلف مقامات پر اس کی اسکریننگ کا اہتمام کیا تھا جس پر بعض کالجز میں جھگڑوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت اس ڈاکیومینٹری کی پاداش میں بی بی سی کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔

سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز‘ (سی بی ڈی ٹی) کے ایک اہلکار نے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سروے کا مقصد مبینہ بدعنوانیوں کا پتا لگانا ہے۔ سروے مکمل ہونے کے بعد ہی یہ معلوم ہو پائے گا کہ جان بوجھ کر بدعنوانی کی گئی ہے یا نہیں۔

SEE ALSO: نریندر مودی پر بی بی سی کی ڈاکیومینٹری میں نیا کیا ہے؟


خبررساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کے مطابق کمپنی کے بھارت میں تجارتی امور سے متعلق دستاویزات کی جانچ کی جا رہی ہے۔

جوں ہی بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے کی خبر آئی اس پر فوری طور پر ردِ عمل کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ صحافیوں اور سیاست دانوں کی طرف سے سخت ردِعمل ظا ہر کیا جا رہا ہے۔

بھارتی صحافیوں کے ایک اہم ادارے ’پریس کونسل آف انڈیا‘ (پی سی آئی) کے رکن اور سینئر صحافی و تجزیہ کار جے شنکر گپتا نے اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے ایمرجنسی سے تعبیر کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی نے ہمیں ایمرجنسی کی یاد دلا دی۔ اگر انکم ٹیکس بچانے کا کوئی معاملہ تھا تو متعلقہ محکمے کو پہلے ہی کارروائی کرنی چاہیے تھی۔

اُنہوں نے سوال کیا کہ ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص حکومت کے خلاف کچھ لکھتا یا بولتا ہے تو اس کے خلاف محکمہ انکم ٹیکس، انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ (ای ڈی) یا سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کی جانب سے کارروائی شروع کر دی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی بی سی کی حالیہ دستاویزی فلم کے اجرا کے بعد جس میں گجرات فسادات کے لیے وزیرِ اعظم نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، حکومت بوکھلاہٹ کی شکار تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فلم سے عالمی سطح پر وزیر ِاعظم اور حکومت کی بدنامی ہو رہی تھی اور حکومت کے اندر بے چینی تھی۔

ان کے مطابق حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ الزامات کے جواب دیتی۔ لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔بلکہ اس نے پہلے تو دستاویزی فلم دکھانے پر پابندی عائد کر دی۔ اگر کسی نے دیکھنے کی کوشش کی تو اس پر حملہ کروایا گیا اور اب بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

جے شنکر گپتا کے مطابق اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت اختلاف رائے یا کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حکومت میڈیا پر کنٹرول کرنے کے لیے مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے۔

سینئر تجزیہ کار سنجے شرما کا کہنا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے لیکن یہاں میڈیا اداروں پر چھاپے پڑ رہے ہیں۔ ان کے مطابق بی بی سی پہلا یا آخری میڈیا ادارہ نہیں ہے جس کے خلاف کارروائی ہوئی ہے، پہلے بھی ایسی کارروائیاں ہو چکی ہیں۔

ان کے مطابق بھارت میں حقیقی صحافت کرنے والے ادارے بہت کم بچے ہیں۔ بیشتر پر حکومت نے اپنا کنٹرول کر لیا ہے۔ جو بچے ہوئے ہیں ان پر بھی قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ حکومت کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں وہ سب کارروائی کی زد میں آئیں گے۔ یکے بعد دیگرے سب کا نمبر آئے گا۔

اپوزیشن جماعت کانگریس کے جنرل سکریٹری اور کمیونی کیشن انچارج جے رام رمیش نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ہمارے مطالبے کو تسلیم کرنے کے بجائے حکومت نے بی بی سی پر چھاپہ ڈال دیا ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے مطابق حکومت سچ بولنے والوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ چاہے وہ اپوزیشن رہنما ہوں، میڈیا ہوں، انسانی حقوق کے کارکن ہوں یا کوئی بھی ہو۔


کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رہنما سیتا رام یچوری نے سوال کیا کہ اس کارراوئی کے بعد بھارت کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ جمہوریت کی ماں ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بار بار اپنے بیانوں میں بھارت کو جمہوریت کی ماں قرار دیتے ہیں۔

سماجوادی پارٹی اور ٹرنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے بھی بی بی سی کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے۔

خیال رہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو منگل کو انٹرویو دیتے ہوئے بی بی سی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوگ 2002 سے مودی جی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انہیں عدالت نے کلین چٹ دی ہے اور وہ مزید مقبول ہوئے ہیں۔

بی بی سی کی ڈاکیومینٹری میں کیا ہے؟

نریندر مودی کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ کے دو حصے ہیں۔فلم کے پہلے حصے میں گجرات میں ہونے والے 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات میں وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس دستاویزی فلم میں 2002 کے دوران گجرات فسادات پر رپورٹ دینےوالی بی بی سی کی سابق نامہ نگار جل مکگورنگ، اس وقت برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ جیک اسٹرا، بی جے پی کے سابق رکن راجیہ سبھا اور صحافی سوپن داس گپتا کے انٹرویوز شامل ہیں۔

ڈاکیومینٹری میں نریندر مودی پر الگ الگ کتابوں کے مصنفین نیلنجن مکھ اپادھیائے اور کرسٹوف جیفرلو، گجرات فسادات کے متاثرین میں شامل عمران داؤد اور امتیاز پٹھان، بی جے پی کے سبرامنیم سوامی، تحقیقاتی صحافی ہرتوش سنگھ بل اور ایک برطانوی سفارت کار سمیت دیگر کی آرا بھی شامل کی گئی ہیں۔

بھارت کی ریاست گجرات میں 27 فروری 2002 کو گودھرا اسٹیشن پر سابر متی ایکسپریس کی آتش زدگی کے نتیجے میں ایودھیا سے واپس آنے والے 59 ہندو جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد پورے گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

ان فسادات میں ریاستی حکومتی مشینری اور پولیس کے کردار پر ماضی میں بھی سوال کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت ریاست کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی پر یہ الزامات بھی عائد کیے گئے تھے کہ انہوں نے پولیس کو فسادات میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے والے مشتعل ہجوم کے خلاف کارروائی سے روک دیا تھا۔