”بلوچستان میں تشدد تشویشناک ہے، قابو پانا ناممکن نہیں“

وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی

وفاقی حکومت نے صوبہ بلوچستان میں پروفیسروں اور ٹیچروں کے قتل کے متواتر واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو شعبہ تعلیم کوشدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان قائم رکھنا اور اساتذہ کے تحفظ کو بھی بنیادی طور پر صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت میں اس سلسلے میں مسلسل رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے تاکہ ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کر کے اس خطرے سے نمٹا جا سکے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر صوبے میں پروفیسروں اور ٹیچروں کا قتل اس طرح جاری رہا تو آنے والے دنوں میں یہاں اساتذہ کی دستیابی تقریباََ نا ممکن ہو جائے گی۔

انھو ں نے کہا کہ” اس سے بہت برا اثر پڑرہا ہے ، اساتذہ میں بہت خوف و ہراس پایا جا تا ہے اگر سب خوف کی وجہ سے صوبہ چھوڑ کر چلے گئے تو پروفیسر اور ٹیچر کہاں سے آئیں گی“

اس سوال پر کہ بلوچستان میں قتل و غارت کے ان واقعات میں کون سے عناصر ملوث ہیں سردار آصف احمد علی کا کہنا تھا کہ بگٹی اور مری قبائل سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند قوم پرست صوبے میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی رہنمااکبر بگٹی کی فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد سے قوم پرست عسکریت پسند نچلی سطح کی مزاحمت کاری جاری رکھے ہوئے ہیں اور وفاقی وزیر کے مطابق اساتذہ کے قتل میں بھی یہی عناصر ملوث ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ تشدد پسندی اتنی زور آور نہیں جس پر قابو نہ پایا جا سکے اور ضرورت صرف موٴثر اقدامات کی ہے۔

سردار آصف علی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صوبے کا احساس محرومی دور کرنے اور اسے اقتصادی طور پر مستحکم بنانے کے لیے بلوچستان پیکج کے علاوہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا بھی اعلان کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں کا ہی حصہ تھا کہ دارالحکومت کی قائد اعظم یونیورسٹی جو دنیا کی بہترین درس گاہوں میں شمار ہو تی ہے اس کے وائس چانسلر کو بلوچستان سے منتخب کیا گیا۔