برقی بلب اور الیکٹریکل مصنوعات مثلاً ٹیلی وژن ،کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اوراسمارٹ فونزکی اسکرین سے خارج ہونے والی مصنوعی روشنیاں دراصل ہماری نیند کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہیں ۔
لندن —
نیند نہ آنے کی شکایت کو رات میں تارے گننے سے تشبہیہ دی جاتی جو عام طور پرمحبوب کی یاد میں گننے جاتے ہے۔ لیکن طبی ماہرین رات میں تارے گننے کی سائنسی توجہیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دور حاضر میں اس مرض کےعام ہونےکی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس ( مصنوعی روشنی) خصوصاً اسکرین لائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
نیند کی دواؤں کے ایک ماہر پروفیسر 'چارلس زیسلر' کہتے ہیں کہ برقی بلب اور الیکٹریکل مصنوعات مثلاً ٹیلی وژن ،کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فونزکی اسکرین سے خارج ہونے والی مصنوعی روشنیاں دراصل ہماری نیند کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہیں ۔
'ہارورڈ میڈیکل اسکول' سے تعلق رکھنے والے پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی قدرتی گھڑی Circadian Rhythm اسے دن کے آغاز پر جگاتی ہے اور رات کا اندھیرا پھیلنے پرنیند کی طرف راغب کرتی ہے لیکن، مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں موجود اس قدرتی گھڑی کےتوازن کو بگاڑ دیتی ہیں جس سے ہمارے سونے اورجاگنےکا قدرتی عمل متاثر ہوتا ہے۔
'جرنل نیچرل ' میں شائع ہونے والی تحقیق کا مقصد مصنوعی روشنی کے استعمال سے لوگوں کے سونے کی عادت پر پڑنے والے مضراثرات سےبچاؤ کے لیئے انسانی رویےمیں تبدیلی لانا اور تکنیکی طریقوں کی مدد سے اس کا حل تلاش کرنا تھا ۔
پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ، وہ لوگ جو ہر روز رات میں نیند پوری نہیں کرتے ہیں ،ان میں فربہ ہونا، یاسیت، اسٹروک اور دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جبکہ نیند کی کمی بچوں میں توجہ میں کمی کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں نیند کے لیے بننے والے ہارمون Melatonin)) کے اخراج میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں جو انسانی جسم کو سونے میں مدد فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف اعصابی خلیہ Neurons)) (پیغام رسانی کا خلیہ )کو فعال بنا دیتی ہے جس سے جسم مزید چوکنا ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ مصنوعی روشنیاں دماغ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ ابھی دن کا سماں ہے لہذا سونے کے عمل کو مزید ٹالا جا سکتا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ ، برقی بلب کی روشنی سے کہیں زیادہ کمپیوٹر اوراسمارٹ فونز کی 'ایل ای ڈی ' لائٹس سونے کے قدرتی نظام کو متاثر کرتی ہیں ،جو دماغ میں موجود کمیکلز پرکیفین کی طرح اثرکرتی ہیں اور رات دیرتک جاگنے پر اکساتی ہیں۔
'' لوگوں کی نیند پوری نہ ہونے کے پیچھےکئی عوامل کار فرما ہیں جن میں صبح سویرے کام پر جانا، ثقیل غذائیں، مشروبات اور کیفین لینے کی عادت شامل ہے لیکن ہم اکثر جاگنےکی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس کو بالکل نظر اندازکر دیتے ہیں جو جسم کی قدرتی گھڑی کو کسی دوا سے بھی زیادہ متاثر کرتی ہیں ۔''
پروفیسر زیسلر کے مطابق، 1950 سے 2000 کے عرصے میں ایک عام برطانوی باشندے کی زندگی میں مصنوعی روشنیوں کا استعمال چار گنا زیادہ بڑھ گیا ہے ،جس کےساتھ نیند نہ آنے کے مرض کی شکایت بھی عام ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ، ماڈرن دورمیں لوگوں کی مصروفیات کا سلسلہ دن کے بعد رات میں بھی جاری رہتا ہےبہت سے لوگوں کو رات میں کئی بار ای میل چیک کرنے کی عادت ہوتی ہے تو کچھ لوگ رات میں ٹی وی پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس دوران انھیں آدھی رات بیت جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ہے ۔
ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 30 فیصد کام کرنے والے امریکی اور 44 فیصد رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد اوسطاً 6 گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں جبکہ پچاس برس قبل صرف 3 فیصد امریکیوں میں یہ شکایت پائی جاتی تھی اسی طرح دنیا بھرکے بچوں میں بھی 1 یا 2 گھنٹے نیند کم لینے کا رجحان نظر آتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ '' ٹیکنالوجی نے ہمارے دن کے 24 گھنٹوں میں سونے اور جاگنے کے معاملات کو بدل کر رکھ دیا ہے رات میں دیر سے بیڈ پر جانا اورصبح سویرے اٹھتے ہی خود کو جگائے رکھنے کے لیے چائے اور کافی پینے کی عادت سے ہماری نیند کا دورانیہ مزید سکڑتا جا رہا ہے۔''
نیند کی دواؤں کے ایک ماہر پروفیسر 'چارلس زیسلر' کہتے ہیں کہ برقی بلب اور الیکٹریکل مصنوعات مثلاً ٹیلی وژن ،کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فونزکی اسکرین سے خارج ہونے والی مصنوعی روشنیاں دراصل ہماری نیند کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ہیں ۔
'ہارورڈ میڈیکل اسکول' سے تعلق رکھنے والے پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ انسانی جسم کی قدرتی گھڑی Circadian Rhythm اسے دن کے آغاز پر جگاتی ہے اور رات کا اندھیرا پھیلنے پرنیند کی طرف راغب کرتی ہے لیکن، مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں موجود اس قدرتی گھڑی کےتوازن کو بگاڑ دیتی ہیں جس سے ہمارے سونے اورجاگنےکا قدرتی عمل متاثر ہوتا ہے۔
'جرنل نیچرل ' میں شائع ہونے والی تحقیق کا مقصد مصنوعی روشنی کے استعمال سے لوگوں کے سونے کی عادت پر پڑنے والے مضراثرات سےبچاؤ کے لیئے انسانی رویےمیں تبدیلی لانا اور تکنیکی طریقوں کی مدد سے اس کا حل تلاش کرنا تھا ۔
پروفیسر زیسلرکا کہنا ہے کہ، وہ لوگ جو ہر روز رات میں نیند پوری نہیں کرتے ہیں ،ان میں فربہ ہونا، یاسیت، اسٹروک اور دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جبکہ نیند کی کمی بچوں میں توجہ میں کمی کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ مصنوعی روشنیاں انسانی دماغ میں نیند کے لیے بننے والے ہارمون Melatonin)) کے اخراج میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں جو انسانی جسم کو سونے میں مدد فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف اعصابی خلیہ Neurons)) (پیغام رسانی کا خلیہ )کو فعال بنا دیتی ہے جس سے جسم مزید چوکنا ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ مصنوعی روشنیاں دماغ کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ ابھی دن کا سماں ہے لہذا سونے کے عمل کو مزید ٹالا جا سکتا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ ، برقی بلب کی روشنی سے کہیں زیادہ کمپیوٹر اوراسمارٹ فونز کی 'ایل ای ڈی ' لائٹس سونے کے قدرتی نظام کو متاثر کرتی ہیں ،جو دماغ میں موجود کمیکلز پرکیفین کی طرح اثرکرتی ہیں اور رات دیرتک جاگنے پر اکساتی ہیں۔
'' لوگوں کی نیند پوری نہ ہونے کے پیچھےکئی عوامل کار فرما ہیں جن میں صبح سویرے کام پر جانا، ثقیل غذائیں، مشروبات اور کیفین لینے کی عادت شامل ہے لیکن ہم اکثر جاگنےکی سب سے بڑی وجہ الیکٹریکل لائٹس کو بالکل نظر اندازکر دیتے ہیں جو جسم کی قدرتی گھڑی کو کسی دوا سے بھی زیادہ متاثر کرتی ہیں ۔''
پروفیسر زیسلر کے مطابق، 1950 سے 2000 کے عرصے میں ایک عام برطانوی باشندے کی زندگی میں مصنوعی روشنیوں کا استعمال چار گنا زیادہ بڑھ گیا ہے ،جس کےساتھ نیند نہ آنے کے مرض کی شکایت بھی عام ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ، ماڈرن دورمیں لوگوں کی مصروفیات کا سلسلہ دن کے بعد رات میں بھی جاری رہتا ہےبہت سے لوگوں کو رات میں کئی بار ای میل چیک کرنے کی عادت ہوتی ہے تو کچھ لوگ رات میں ٹی وی پروگرام دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اس دوران انھیں آدھی رات بیت جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ہے ۔
ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 30 فیصد کام کرنے والے امریکی اور 44 فیصد رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد اوسطاً 6 گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں جبکہ پچاس برس قبل صرف 3 فیصد امریکیوں میں یہ شکایت پائی جاتی تھی اسی طرح دنیا بھرکے بچوں میں بھی 1 یا 2 گھنٹے نیند کم لینے کا رجحان نظر آتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ '' ٹیکنالوجی نے ہمارے دن کے 24 گھنٹوں میں سونے اور جاگنے کے معاملات کو بدل کر رکھ دیا ہے رات میں دیر سے بیڈ پر جانا اورصبح سویرے اٹھتے ہی خود کو جگائے رکھنے کے لیے چائے اور کافی پینے کی عادت سے ہماری نیند کا دورانیہ مزید سکڑتا جا رہا ہے۔''