ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے کی عادت بچوں کی ذہانت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ایسےبچے جن کے بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی پائی جاتی ہے، وہ آگے چل کر اسکول کی پڑھائی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے اثرات سے لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور وہ لڑکوں کی نسبت زیادہ نیند کی کمی کا شکار نظر آتی ہیں، جس کا اثر ان کی زندگی بھر کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔
'یونیورسٹی کالج لندن' میں ہونےوالی تحقیق کے نتیجے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ،جن بچوں کے بیڈ ٹائم میں3برس کی عمر سے بے قاعدگی موجود تھی انھوں نے حساب اور انگریزی کے مضمون میں بہت کم نمبر حاصل کئے، جبکہ ان کا آئی کیو ٹیسٹ کا اسکور بھی بہت کم رہا۔
'جرنل آف ایپی ڈیمیو لوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ' میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے سونے کی عادت میں بے قاعدگی اور بچوں کی ذہانت کے درمیان تعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔
تحقیق کی سربراہ پروفیسر 'ایوان کیلی' کے مطابق، بچوں کی ابتدائی ذہنی نشو و نما کا بچے کی مستقبل کی صحت اور خوشحالی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن، چھوٹے بچوں میں بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت ان کی ذہنی صلاحیتوں کو محدود کرسکتی ہے جس کا اثر بچے کے مستقبل کی کامیابیوں پرپڑسکتا ہے۔
تحقیق میں 7 برس کے 11,200 بچوں کے حساب، انگریزی اور آئی کیو ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبروں کا موازنہ کیا گیا، اور نتائج کو والدین کی جانب سے فراہم کردہ بچوں کی سونے کی عادت سے متعلق معلومات کے ساتھ ملا کر دیکھا گیا۔
اس سے قبل ماہرین نے والدین سے ایک سوالنامہ بھروایا تھا جس میں ان سے بچے کی تین برس، پانچ برس اور سات برس کی عمر میں سونے کی عادت کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ اس تمام عرصے میں بچوں کی سونے کی عادت میں کتنا فرق آیا یا پھر وہ مختلف اوقات میں سونے کی عادت پر قائم رہے۔
تحقیق کے نتیجے میں یہ بات صاف نظر آئی کہ سب سے زیادہ تین برس کے بچوں بیڈٹائم میں بےقاعدگی کی عادت سے متاثر تھے اور انھوں نے سات برس کی عمر میں سب سے خراب تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ، ان کا آئی کیو ٹیسٹ میں بھی بہت کم نمبر حاصل کئےتاہم سات برس کی عمرتک بچوں کی نصف تعداد میں مقررہ بیڈ ٹائم پر سونے کی عادت پیدا ہو چکی تھی۔
ماہرین کے مطابق، تین برس کی عمر سے بچوں کے رات میں سونے کے اوقات مقرر ہونا چاہیئے،کیونکہ یہ بچے کی ذہنی نشوونما کا وقت ہوتا ہےجب دماغ دن بھر کی معلومات کو محفوظ کرتا ہے اور نئی نئی صلاحیتوں کو یاد کرتا ہےلہذا نیند میں خلل یا بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت بچے کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
تحقیق سے منسلک امینڈا ساکر کہتی ہیں کہ،'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تین برس کی عمر میں سونے کی عادت بچوں پر زیادہ گہرا اثر چھوڑتی ہے اور یہی بات باعث تشویش ہے۔'
پروفیسر کیلی کے نزدیک بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے کئی اسباب ہیں جن میں بچوں کا اضافی ہوم ورک، ٹیلی وژن یا کمپیوٹر گیمز سے کہیں زیادہ اہم ایک خاندان کا سونے کا روٹین ہے جو بچے کی سونے کی عادت کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ،'ہمارا نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ بچوں میں بیڈ ٹائم کی عادت کا ہونا ضروری ہے چاہے گھریلو معاملات کسی بھی نوعیت کے ہوں ۔''
گذشتہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ برطانوی اسکولوں کے بچوں میں ایک گھنٹہ کم نیند لینے کی عادت پائی جاتی ہے، جبکہ ماہرین کے نزدیک نیند کی کمی کا شکار بچے تقریبا دو سال کے برابر سیکھنے کے عمل سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے اثرات سے لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور وہ لڑکوں کی نسبت زیادہ نیند کی کمی کا شکار نظر آتی ہیں، جس کا اثر ان کی زندگی بھر کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔
'یونیورسٹی کالج لندن' میں ہونےوالی تحقیق کے نتیجے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ،جن بچوں کے بیڈ ٹائم میں3برس کی عمر سے بے قاعدگی موجود تھی انھوں نے حساب اور انگریزی کے مضمون میں بہت کم نمبر حاصل کئے، جبکہ ان کا آئی کیو ٹیسٹ کا اسکور بھی بہت کم رہا۔
'جرنل آف ایپی ڈیمیو لوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ' میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے سونے کی عادت میں بے قاعدگی اور بچوں کی ذہانت کے درمیان تعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔
تحقیق کی سربراہ پروفیسر 'ایوان کیلی' کے مطابق، بچوں کی ابتدائی ذہنی نشو و نما کا بچے کی مستقبل کی صحت اور خوشحالی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن، چھوٹے بچوں میں بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت ان کی ذہنی صلاحیتوں کو محدود کرسکتی ہے جس کا اثر بچے کے مستقبل کی کامیابیوں پرپڑسکتا ہے۔
تحقیق میں 7 برس کے 11,200 بچوں کے حساب، انگریزی اور آئی کیو ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبروں کا موازنہ کیا گیا، اور نتائج کو والدین کی جانب سے فراہم کردہ بچوں کی سونے کی عادت سے متعلق معلومات کے ساتھ ملا کر دیکھا گیا۔
اس سے قبل ماہرین نے والدین سے ایک سوالنامہ بھروایا تھا جس میں ان سے بچے کی تین برس، پانچ برس اور سات برس کی عمر میں سونے کی عادت کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ اس تمام عرصے میں بچوں کی سونے کی عادت میں کتنا فرق آیا یا پھر وہ مختلف اوقات میں سونے کی عادت پر قائم رہے۔
تحقیق کے نتیجے میں یہ بات صاف نظر آئی کہ سب سے زیادہ تین برس کے بچوں بیڈٹائم میں بےقاعدگی کی عادت سے متاثر تھے اور انھوں نے سات برس کی عمر میں سب سے خراب تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ، ان کا آئی کیو ٹیسٹ میں بھی بہت کم نمبر حاصل کئےتاہم سات برس کی عمرتک بچوں کی نصف تعداد میں مقررہ بیڈ ٹائم پر سونے کی عادت پیدا ہو چکی تھی۔
ماہرین کے مطابق، تین برس کی عمر سے بچوں کے رات میں سونے کے اوقات مقرر ہونا چاہیئے،کیونکہ یہ بچے کی ذہنی نشوونما کا وقت ہوتا ہےجب دماغ دن بھر کی معلومات کو محفوظ کرتا ہے اور نئی نئی صلاحیتوں کو یاد کرتا ہےلہذا نیند میں خلل یا بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت بچے کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
تحقیق سے منسلک امینڈا ساکر کہتی ہیں کہ،'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تین برس کی عمر میں سونے کی عادت بچوں پر زیادہ گہرا اثر چھوڑتی ہے اور یہی بات باعث تشویش ہے۔'
پروفیسر کیلی کے نزدیک بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے کئی اسباب ہیں جن میں بچوں کا اضافی ہوم ورک، ٹیلی وژن یا کمپیوٹر گیمز سے کہیں زیادہ اہم ایک خاندان کا سونے کا روٹین ہے جو بچے کی سونے کی عادت کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ،'ہمارا نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ بچوں میں بیڈ ٹائم کی عادت کا ہونا ضروری ہے چاہے گھریلو معاملات کسی بھی نوعیت کے ہوں ۔''
گذشتہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ برطانوی اسکولوں کے بچوں میں ایک گھنٹہ کم نیند لینے کی عادت پائی جاتی ہے، جبکہ ماہرین کے نزدیک نیند کی کمی کا شکار بچے تقریبا دو سال کے برابر سیکھنے کے عمل سے محروم ہو جاتے ہیں۔