ایک ایسے وقت میں جب جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شدید بارشوں اور سیلابوں کی لپیٹ میں ہیں۔ یورپ اوربالخصوص فرانس کو شدید گرمی کی چوتھی لہر کا سامنا ہے جہاں اونچےدرجہ حرارت کا نشانہ عمومی طور پر وہ علاقے بنے ہوئے ہیں جہاں گرمیوں میں موسم عموماً خوشگوار رہتا ہے اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد معتدل موسم کا لطف اٹھانے کے لیے ان علاقوں کا رخ کرتی ہے۔
فرانس میں اتوار سے شروع ہونے والی گرمی کی چوتھی لہر نے دیہی علاقوں میں تاریخ کی بدترین خشک سالی کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے جہاں پہلے ہی پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
پانی کے تحفظ کے لیے فرانس کے تقریباً تمام مرکزی حصے میں پانی کے بے جا استعمال پر پابندیاں نافذ ہیں جس میں پودوں کو پانی دینے کی ممانعت بھی شامل ہے۔
دوسری جانب کسانوں نے اس خدشے کااظہار کیا ہے کہ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو اس سال موسمِ سرما میں دودھ کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
وزیرِ اعظم الزبتھ بورن کے دفتر نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک کرائسس ٹیم تشکیل دی ہے جس نے ٹرکوں کے ذریعے دیہی علاقوں میں پینے کے پانی کی فراہمی شروع کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عہدے دار جوہری بجلی گھروں کی پیداوار کے مسائل اور فصلوں پر دباؤ کی صورتِ حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: یورپ میں شدید گرمی، ہزاروں ایکڑ جنگلات شعلوں کی لپیٹ میںموسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوب مغربی حصے میں درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کی توقع ہےجب کہ اس کے بعد گرم ہواؤں کا رخ شمال کی جانب ہو جائے گا۔
فرانس کے موسمیات سے متعلق چینل کے لا چین میٹیو نے کہا ہے گرمی کی نئی لہر شروع ہوا چاہتی ہے۔
فرانس کے موسمیات سے متعلق چینل کے مطابق یہ خشک سالی 1958 کے بعد سے بدترین ہے اور اس ماہ کے وسط تک اس کی شدت برقرار رہنے کا امکان ہے۔ جب کہ جولائی میں فرانس بھر میں اوسطاً ایک سینٹی میٹر سے بھی کم بارش ہوئی ہے۔
خشک سالی اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا اثر فصلوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ فرانس کے محکمۂ زراعت کا کہناہے کہ اس سال مکئی کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلےمیں ساڑھے 18 فی صد کم رہنے کی توقع ہے۔ یہ ایسے موقع پر ہو رہا ہے کہ جب کہ روس اور یوکرین سے یورپ کے لیے اجناس کی فراہمی گھٹ جانے کے بعد خوراک کی قیمتیں پہلے ہی بلند سطح پر پہنچی ہوئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کسانوں کی نیشنل فیڈریشن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ خشک سالی کے باعث چارے میں کمی کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں دودھ کی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
اسی طرح جوہری بجلی گھر چلانے والے ادارے 'ای ڈی ایف 'نے دریائے گارون کا درجہ حرارت بڑھنے کے بعد جنوب مغربی فرانس میں قائم اپنے ایک جوہری بجلی گھر کی پیداوار میں کمی کر دی ہے۔ ادارے نے دریائے رون کے ساتھ واقع جوہری ری ایکٹروں کے لیے بھی اسی نوعیت کا انتباہ جاری کیا ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب یورپ کو اپنے 56 میں سے اہم نوعیت کے نصف جوہری بجلی گھروں کو تکنیکی اور دیکھ بھال کی وجہ سے بندش کا سامنا ہے، بڑھنے ہوئے درجہ حرارت نے توانائی کی طلب اور رسد کے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اس رپورٹ کا کچھ مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔