جب کائنات میں کوئی بہت بڑا ستارہ پھٹتا ہے تو اس کے لیے انگریزی میں supernova کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور یہ کائنات میں شدید نوعیت کے پیش آنے والے واقعات میں سے ایک ہوتا ہے۔
واشنگٹن —
سائنسدانوں نے خلاء میں بہت زیادہ فاصلے پر ایک انتہائی قدیم اور بڑے ستارے کی باقیات کی دریافت اور اس کی تصویر کھینچے جانے کی تصدیق کی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس بہت قدیم اور عظیم ستارے کی دس ارب سال پرانی باقیات سے کائنات کی تخلیق کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہونے کا امکان ہے۔
جب کائنات میں کوئی بہت بڑا ستارہ پھٹتا ہے تو اس کے لیے انگریزی میں supernova کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور یہ کائنات میں شدید نوعیت کے پیش آنے والے واقعات میں سے ایک ہوتا ہے۔ کائنات میں باقی رہ جانے والی اس ستارے کی باقیات اُن ماہر ِفلکیات کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جو کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں اور اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے منسلک ماہر ِ فلکیات ڈیوڈ روبن کہتے ہیں کہ، ’’ سائنسدانوں کو معلوم ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ اضافہ کیوں ہو رہا ہے اس بارے میں انہیں کچھ معلوم نہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ فاصلے سے ستاروں کی باقیات کی بالکل درست پیمائش ممکن بنا کر نہ صرف انکی خصوصیات جانچ سکیں بلکہ ان کی رفتار کے ماخذ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرسکیں‘‘۔
روبن بڑے ستاروں کی باقیات کی ایک خاص قسم IA کا مطالعہ کر ہے ہیں جن کی روشنی ایک طرح کی ہے۔ ان کے مطابق، ’’اگر ہم ایک بڑے ستارے کی باقیات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہاں زمین سے ان کی روشنی دیکھ سکتے ہیں تو ہم یہ اندازہ بھی کر سکتے ہیں کہ وہ کتنے فاصلے پر ہیں۔ یوں ہم اس فاصلے اور کائنات کے پھیلاؤ کے درمیان تقابلی جائزہ کرسکتے ہیں۔ اور حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں ستارے کی باقیات کی رفتار کے بارے میں مختلف نظریات کو پرکھ سکتے ہیں‘‘۔
ماہر ِ فلکیات نے پہلی مرتبہ خلاء میں انتہائی فاصلے پر موجود اس بڑے ستارے کی باقیات کی نشاندہی کائنات کے مدار میں گھومنے والی hubble space telescope کی مدد سے کی تھی۔ اس وقت اس supernova کی روشنی اتنی مدھم تھی کہ وہ بغور دیکھنے پر ہی دکھائی دیتا تھا۔ اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تحقیق دانوں کو پانچ سال تک ایک نسبتا طاقتور ٹیلی سکوپ کا انتظار کرنا پڑا۔ جس نے یہ تصدیق کرنے میں ان کی مدد کی کہ خلاء میں دور بہت دور نظر آنے والی مدھم روشنی درحقیقت ایک بہت پرانے اور بڑے ستارے کی باقیات ہی ہے۔
روبن نے کیلی فورنیا میں امریکہ کے ماہر ِفلکیات کی ایک مجلس میں اسے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ ان کے بقول، ’’ یہ خلاء میں اتنے بڑے ستارے کی باقیات کا بالکل درست فاصلے کے حساب کے ساتھ نشاندہی کیا جانے والا پہلا ستارہ ہے۔ یہ دس ارب سال پرانا ہے۔ اسکی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ہماری کائنات اس ستارے کی تخلیق سے محض تقریبا چار ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی ‘‘۔
روبن کو امید ہے کہ کائنات کے دکھائی دینے والے حصوں کے کناروں میں انہیں مستقبل میں بھی ایسے مزید کئی ستاروں کی باقیات مل سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کوششیں موجودہ اور آئندہ آنے والے سالوں میں جدید ترین ٹیلی سکوپس کی مدد سے ہی ممکن ہو سکیں گی۔
جب کائنات میں کوئی بہت بڑا ستارہ پھٹتا ہے تو اس کے لیے انگریزی میں supernova کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور یہ کائنات میں شدید نوعیت کے پیش آنے والے واقعات میں سے ایک ہوتا ہے۔ کائنات میں باقی رہ جانے والی اس ستارے کی باقیات اُن ماہر ِفلکیات کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جو کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں اور اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے منسلک ماہر ِ فلکیات ڈیوڈ روبن کہتے ہیں کہ، ’’ سائنسدانوں کو معلوم ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ اضافہ کیوں ہو رہا ہے اس بارے میں انہیں کچھ معلوم نہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ فاصلے سے ستاروں کی باقیات کی بالکل درست پیمائش ممکن بنا کر نہ صرف انکی خصوصیات جانچ سکیں بلکہ ان کی رفتار کے ماخذ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرسکیں‘‘۔
روبن بڑے ستاروں کی باقیات کی ایک خاص قسم IA کا مطالعہ کر ہے ہیں جن کی روشنی ایک طرح کی ہے۔ ان کے مطابق، ’’اگر ہم ایک بڑے ستارے کی باقیات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہاں زمین سے ان کی روشنی دیکھ سکتے ہیں تو ہم یہ اندازہ بھی کر سکتے ہیں کہ وہ کتنے فاصلے پر ہیں۔ یوں ہم اس فاصلے اور کائنات کے پھیلاؤ کے درمیان تقابلی جائزہ کرسکتے ہیں۔ اور حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں ستارے کی باقیات کی رفتار کے بارے میں مختلف نظریات کو پرکھ سکتے ہیں‘‘۔
ماہر ِ فلکیات نے پہلی مرتبہ خلاء میں انتہائی فاصلے پر موجود اس بڑے ستارے کی باقیات کی نشاندہی کائنات کے مدار میں گھومنے والی hubble space telescope کی مدد سے کی تھی۔ اس وقت اس supernova کی روشنی اتنی مدھم تھی کہ وہ بغور دیکھنے پر ہی دکھائی دیتا تھا۔ اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تحقیق دانوں کو پانچ سال تک ایک نسبتا طاقتور ٹیلی سکوپ کا انتظار کرنا پڑا۔ جس نے یہ تصدیق کرنے میں ان کی مدد کی کہ خلاء میں دور بہت دور نظر آنے والی مدھم روشنی درحقیقت ایک بہت پرانے اور بڑے ستارے کی باقیات ہی ہے۔
روبن نے کیلی فورنیا میں امریکہ کے ماہر ِفلکیات کی ایک مجلس میں اسے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ ان کے بقول، ’’ یہ خلاء میں اتنے بڑے ستارے کی باقیات کا بالکل درست فاصلے کے حساب کے ساتھ نشاندہی کیا جانے والا پہلا ستارہ ہے۔ یہ دس ارب سال پرانا ہے۔ اسکی تاریخ بہت قدیم ہے۔ ہماری کائنات اس ستارے کی تخلیق سے محض تقریبا چار ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی ‘‘۔
روبن کو امید ہے کہ کائنات کے دکھائی دینے والے حصوں کے کناروں میں انہیں مستقبل میں بھی ایسے مزید کئی ستاروں کی باقیات مل سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کوششیں موجودہ اور آئندہ آنے والے سالوں میں جدید ترین ٹیلی سکوپس کی مدد سے ہی ممکن ہو سکیں گی۔