واشنگٹن —
تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا ایک مدت سے سائنس دانوں کی آرزو رہی ہے۔ سائنسی اندازوں کے مطابق تخلیقِ کائنات کا واقعہ لگ بھگ 14 ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب اتنے پرانے واقعے کی کھوج لگانا کچھ آسان کام تو ہے نہیں، اسی لیے ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان ایک مصنوعی (ورچوئل) کائنات تخلیق دے کر 'بِگ بینگ' کا تجربہ دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ توانائی کی 'ارگون نیشنل لیبارٹری' سے منسلک ماہرینِ طبیعات دنیا کے تیسرے تیز ترین کمپیوٹر کی مدد سے 'بگ بینگ' کے اس تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوششوں مںن مصروف ہے جس سے انہیں امید ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔
ایک مدت تک سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ٹیلی اسکوپوں کے ذریعے اندھیرے آسمانوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور اس مشق کے ذریعے انہوں نے کائنات کے نقشے تیار کیے ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے کائنات اور کہکشائوں کے ان نقشوں کو حقیقت سے مزید ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔
آب انہی آسمانی نقشوں کی مدد سےماہرین نے 'ارگون میرا سپر کمپیوٹر' پر ایک مصنوعی کہکشاں تخلیق کی ہے جس پر وہ اب تک کا سب سے ہائی ریزولوشن والا 'بگ بینگ' تجربہ کریں گے اور کائنات میں مادے کی تقسیم کی حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔
سلمان حبیب اس منصوبے کے قائدین میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔
سلمان حبیب کے بقول کائنات کی تخلیق کا راز سمجھ میں آجانے سے پوری سائنس سمجھی جاسکتی ہے۔
اس منصوبے کے ایک اور قائد کیٹرن ہیٹمین کے مطابق تجربے کے دوران میں مختلف اوقات میں کائنات کی مختلف ہیئتوں کی تصویروں اور موویز سے مدد لی جائے گی۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس تجربے سے 'ڈارک میٹر' یا 'تاریک مادے' کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مدد ملے گی۔ 'ڈارک میٹر' مادے کی ایک خیالی قسم ہے جس کے بارے میں ماہرین کا گمان ہے کہ کائنات کا بیش تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔
سلمان حبیب کہتے ہیں خلا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ یا تو رکی ہوئی ہے یا ایک مخصوص شکل میں موجود ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خلائیں تخلیق پارہی ہیں۔
سلمان کہتے ہیں کہ کائنات میں توسیع کا فلسفہ آئین اسٹائین کی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' سے بھی تقویت پاتا ہے لیکن اس نظریے کے مطابق اس توسیعی عمل کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سست پڑجانا چاہیے تھا۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور 2011ء میں طبعیات کا 'نوبیل انعام' حاصل کرنے والی تحقیق اور دیگر مشاہدوں سے یہ پتا چلا ہے کہ کائنات کی توسیع کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔
سلمان حبیب کے مطابق اس راز پر تاحال پردہ پڑا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن کئی سائنس دانوں نے اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ کائنات کی اس توسیعی عمل کے پیچھے درحقیقت 'تاریک توانائی' یا 'ڈارک انرجی' کی قوت موجود ہے۔
'ڈارک میٹر' کی طرح 'ڈارک انرجی' بھی توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کائنات اس توانائی پر مشتمل ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ 'ڈارک انرجی' کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے گا۔
امریکی محکمہ توانائی کی 'ارگون نیشنل لیبارٹری' سے منسلک ماہرینِ طبیعات دنیا کے تیسرے تیز ترین کمپیوٹر کی مدد سے 'بگ بینگ' کے اس تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوششوں مںن مصروف ہے جس سے انہیں امید ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔
ایک مدت تک سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ٹیلی اسکوپوں کے ذریعے اندھیرے آسمانوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور اس مشق کے ذریعے انہوں نے کائنات کے نقشے تیار کیے ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے کائنات اور کہکشائوں کے ان نقشوں کو حقیقت سے مزید ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔
آب انہی آسمانی نقشوں کی مدد سےماہرین نے 'ارگون میرا سپر کمپیوٹر' پر ایک مصنوعی کہکشاں تخلیق کی ہے جس پر وہ اب تک کا سب سے ہائی ریزولوشن والا 'بگ بینگ' تجربہ کریں گے اور کائنات میں مادے کی تقسیم کی حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔
سلمان حبیب اس منصوبے کے قائدین میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔
سلمان حبیب کے بقول کائنات کی تخلیق کا راز سمجھ میں آجانے سے پوری سائنس سمجھی جاسکتی ہے۔
اس منصوبے کے ایک اور قائد کیٹرن ہیٹمین کے مطابق تجربے کے دوران میں مختلف اوقات میں کائنات کی مختلف ہیئتوں کی تصویروں اور موویز سے مدد لی جائے گی۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس تجربے سے 'ڈارک میٹر' یا 'تاریک مادے' کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مدد ملے گی۔ 'ڈارک میٹر' مادے کی ایک خیالی قسم ہے جس کے بارے میں ماہرین کا گمان ہے کہ کائنات کا بیش تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔
سلمان حبیب کہتے ہیں خلا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ یا تو رکی ہوئی ہے یا ایک مخصوص شکل میں موجود ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خلائیں تخلیق پارہی ہیں۔
سلمان کہتے ہیں کہ کائنات میں توسیع کا فلسفہ آئین اسٹائین کی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' سے بھی تقویت پاتا ہے لیکن اس نظریے کے مطابق اس توسیعی عمل کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سست پڑجانا چاہیے تھا۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور 2011ء میں طبعیات کا 'نوبیل انعام' حاصل کرنے والی تحقیق اور دیگر مشاہدوں سے یہ پتا چلا ہے کہ کائنات کی توسیع کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔
سلمان حبیب کے مطابق اس راز پر تاحال پردہ پڑا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن کئی سائنس دانوں نے اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ کائنات کی اس توسیعی عمل کے پیچھے درحقیقت 'تاریک توانائی' یا 'ڈارک انرجی' کی قوت موجود ہے۔
'ڈارک میٹر' کی طرح 'ڈارک انرجی' بھی توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کائنات اس توانائی پر مشتمل ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ 'ڈارک انرجی' کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے گا۔