انسداد دہشت گردی کے لیے انداز فکر تبدیل کرنے کی ضرورت

سابق نو آبادیوں میں کمزور مرکزی حکومتوں اور نسلی اقلیتی گروپوں کے درمیان کشیدگیوں اور اختلافات کو ان علاقوں کے اندر ہی طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔
ایک ممتاز اسلامی اسکالر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ توجہ مذہبی انتہا پسندوں کو دی جاتی ہے اور کمزور مرکزی حکومتوں کے مسئلے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام رہتی ہیں ۔

فرانسیسی فوجوں نے مالی میں القاعدہ سے وابستہ دہشت گردوں سے جنگ کی ہے اور ان علاقوں میں جن پر طوارق نسل کے باغیوں نے اپنا تسلط قائم کر لیا تھا، امن و امان بحال کرنے میں مدد دی ہے ۔

لیکن مقامی لیڈرز، جیسے موسیٰ اومیتا کہتے ہیں کہ اس بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی بہتر بنائی جائے۔ ’’ یہ سارے مسائل غربت کی وجہ سے اور شمال میں اقتصادی ترقی کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوئے۔‘‘

فرانس کے صدر فرانسوا اولاند کہتے ہیں کہ افریقہ میں نئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں اور یہ صورتِ حال بین الاقوامی برادری کے لیے چیلنج ہے ۔ ’’ساحل کے علاقے میں جو عدم استحکام ہے، اس میں خطرہ یہ ہے کہ تمام ایسے تنازعات سے جو حل نہیں ہوئے ہیں، دہشت گردی پھیل سکتی ہے ۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اس علاقے کی آبادی کے مصائب کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر کام کریں۔‘‘

اپنی کتاب دی تھسل اینڈ دی ڈرون میں جس پر بہت سے لوگوں نے اظہارِ خیال کیا ہے، اسلامی اسکالر اکبر احمد نے افغانستان اور پاکستان سے یمن اور صومالیہ تک، جنوبی فلپائن سے لے کر مالی اور نائجیریا تک، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جائزہ لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’ ان تمام ملکوں میں بڑے بڑے قبائلی گروہ ہیں جنہیں اپنی مرکزی حکومت کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔ یہ سب وہ علاقے ہیں جہاں ان کے قدرتی وسائل کے حوالے سے، سنگین اقتصادی مسائل موجود ہیں ۔ اور ان تمام ملکوں میں ہم اسلام سے لوگوں کے تعلق کو اب بھی غلط انداز سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

اکبر احمد کہتے ہیں کہ نائجیریا میں بوکو حرام کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں، حکومت کی تمام تر توجہ اسلامی بنیاد پرستی کی طرف ہے۔ اس طرح اسے اقتصادی ترقی میں جو ناکامیاں ہوئی ہیں، وہ ان سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے ۔

’’اس جنگ کو مختلف رنگ دے کر، مرکزی حکومت اس میں امریکہ اور یورپ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک قسم کا جہاد، ایک طرح سے صلیبی جنگوں، اور مغرب، عیسائیت اور اسلام کے درمیان تصادم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔‘‘

پروفیسر احمد کہتے ہیں کہ مرکزی حکومتیں اکثر پورے نسلی گروپوں سے د شمنیاں مول لے لیتی ہیں۔ ’’جب مجرمانہ رجحانات رکھنے والے 100 یا 500 یا پانچ ہزار افراد کی طرف سے اس قسم کی کارروائیاں ہوتی ہیں، تو آپ اس قبیلے کے پچاس لاکھ یا ایک سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو ان میں شامل کر لیتے ہیں ۔ اس طرح پورے ملک کی تباہی کا سامان ہو جاتا ہے۔ اور پوری بین الاقوامی برادری اس کام میں شامل ہو جاتی ہے۔‘‘

پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ جیسے ہی ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں شورش دم توڑ رہی ہے یا جب پاکستان میں انتخاب کی تیاریاں ہوتی ہیں اور ملک جمہوریت کی راہ پر چل پڑتا ہے، تو امریکہ اور یورپ دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ افریقہ میں ساحل کے علاقے میں پھر یہ چکر شروع ہونے والا ہے ۔‘‘

احمد کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اس چکر سے نکلنا ہے، تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں اپنے اندازِ فکر کو بدلنا ہوگا۔

’’اگر یہ مسئلہ قباِئلی کلچر اور قدیم رسم و رواج کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے، تو پھر ہمیں اس کا حل بھی ان چیزوں میں تلاش کرنا چاہیئے، مذہب میں نہیں، اور نہ قرآن کی آیتوں میں۔‘‘

پروفیسر احمد کا مشورہ یہ ہے کہ سابق نو آبادیوں میں کمزور مرکزی حکومتوں اور نسلی اقلیتی گروپوں کے درمیان کشیدگیوں اور اختلافات کو ان علاقوں کے اندر ہی طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔