پاکستان انتہاپسندی اور دہشت گردی کو کچلنے کے لیے ملک کے ایک اہم صوبے سندھ میں پولیس میں 10 ہزار نئی بھرتیاں، بڑی تعداد میں نگرانی کرنے والے کیمروں کی تنصیب اور پاک چین اقتصادی راہداری کے حفاظتی انتظامات میں اضافہ کررہا ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے نئے مالی سال کے لیے صوبہ سندھ کے سیکیورٹی بجٹ میں 10 فی صد اضافہ، خاص طور پر کراچی کے حوالے، جس کی آبادی اب تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ بتائی جاتی ہے، مسئلے کا حل نہیں ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم سیٹیزنز پولیس لائزان کمیٹی کے عہدے دار جمیل یوسف کہتے ہیں کہ ہمیں منصوبوں کی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں قانون کے نفاذ کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ کراچی اور صوبے میں جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل، جدید آلات، سائنسی طریقہ تفتیش اور دور جدید سے ہم آہنگ انٹیلی جینس نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔
کراچی میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں جرائم پیشہ عناصر اور مسلح گروہوں نے اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور پولیس وہاں جانے سے کتراتی ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تربیت اور آلات کی فراہمی کے ذریعے مضبوط تر بنائیں گے۔
صوبائی حکومت کراچی سمیت صوبے کے اہم شہروں میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی کیمرے نصب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور پاک چین اقتصادی راہداری کی حفاظت کے لیے تین ہزار حفاظتی چوکیاں تعمیر کرنا چاہتی ہے۔
کراچی میں گذشتہ برسوں کے دوران کئی بڑے دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں۔ جن میں 2014 میں طالبان کا انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا حملہ شامل ہے جس میں 36 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اہم تنصیبات کے علاوہ دہشت گرد مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والی اہم شخصيات کو بھی نشانہ بناتی رہے ہیں۔
حالیہ دو برسوں کے دوران دہشت گرد گرہوں اور انتہاپسندوں کے خلاف ایک بڑی سیکیورٹی مہم کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہر 950 افراد کے تحفظ کے لیے صرف ایک پولیس اہل کار ہے جب کہ معیاری طور پر ہر 275 افراد کے لیے ایک پولیس اہل کار درکار ہوتا ہے۔
صوبہ سندھ نے نئے مالی سال کے اپنے بجٹ میں اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کو مضبوط کرنے کے لیے تقریباً 90 کروڑ ڈالر مختص کیے ہیں، جس میں پولیس میں 10 ہزار نئی بھرتیاں، نگرانی اور سیکیورٹی کے ہائی ٹیک آلات کی خريد، نئے نگران کیمروں کی تنصيب اور جدید ترین فورنسک لیبارٹری کا قیام شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز بہت خوش آئند ہیں لیکن حکومت کو دوسرے شعبوں کو بھی اپنے مدنظر رکھنا ہوگا۔ جس کے لیے سمارٹ سیاسی نظام کی فراہمی اور اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کو بھی جوابدہ بنانا ہو گا۔