|
27 فروری کو سوشل میڈیا پر نمودار ہونے والے ایک ہیش ٹیگ WhereIsKate# نے آن لائن دنیا کے سمندر میں ایک طوفان برپا کر دیا۔ اس ورچوئل دنیا کے لوگ یہ جاننے کے لیے مشتاق نظر آئے کہ برطانیہ کی پرنسیس آف ویلز کہاں ہیں۔
کیٹ کے متعلق جہاں مختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں کیں گئیں، تو کہیں شوقیہ جاسوس معلومات ڈھونڈ نکالنے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ کوئی میمز بنانے میں لگ گیا، تو کئی ایک نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے لطیفوں کو چن لیا۔ اس ساری ہنگامہ آرائی کا سبب یہ تھا کہ بہت دنوں سے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شہزادی کیٹ کہاں ہیں۔
اس واقعہ نے برطانیہ کے شاہی خاندان اور باقی سب کو، آن لائن میڈیا کی جدید دنیا کا یہ سبق سکھایا کہ اگر آپ کی خاموشی سے معلومات میں خلا پیدا ہوتا ہے تو دوسرے اس خلا کو بھرنے کے لیے تیزی سے آگے آتے ہیں اور اس سے نتائج میں گڑبڑ پیدا ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کے بادشاہ اور ان سے منسلک چیزوں پر نظر رکھنے والی "بز فیڈ نیوز" کی رپورٹر ایلی ہال کہتی ہیں کہ شاہی خاندان کی جانب سے کبھی شکایت یا وضاحت نہیں کی جاتی، لیکن یہ چیز ڈیجیٹل دنیا میں کام نہیں کرتی۔
اس بحث مباحثے میں خیال آرائی کرنا، ان لوگوں کے لیے تفریح کی بات تھی جن کے پاس بہت وقت تھا، ماسوائے حقیقی زندگی میں جینے والے اس حقیقی کردار کے جسے حقیقی طبی مسائل کا سامنا تھا۔
اس کہانی کا آغاز 17 جنوری کو کنگسٹن پیلس کے ایک اعلان سے ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ پرنسیس کیٹ ایک طے شدہ سرجری سے صحت یاب ہونے کے لیے اسپتال میں ہیں اور وہ ایسٹر کے بعد تک کسی عوامی تقریب میں شریک نہیں ہوں گی۔ اس سرکاری بیان کو اس وقت تک زیادہ توجہ نہیں ملی جب 27 فروری کو یہ اعلان سامنے آیا کہ ان کے شوہر پرنس ولیم ذاتی وجوہ کی بنا پر ایک میموریل سروس میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔
ایک صحافی ریان بریڈرک کہتے ہیں کہ یہی وہ وقت تھا جب قیاس آرائیوں نے جنم لینا شروع کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ کیٹ کہاں تھی؟ کیا وہ شدید بیمار تھی، کوما میں تھی، یا شاید پلاسٹک سرجری کرانے بیرون ملک گئی ہوئی تھی، یا اس کی شادی میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، یا اس نے ولیم کو چھوڑ دیا تھا، کیا اس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔
اس طرح کی ہزاروں غیر مقصدقہ افوائیں سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی امریکی ٹاک شو تک پھیل گئیں۔ پھر میمز بننے شروع ہو گئے جن میں 2014 کی ایک فلم "گان گرل" کی گمشدہ بیوی کے چہرے پر کیٹ کی تصویر چسپاں کیا جانا بھی شامل تھا۔
"نوفلٹر" کی مصنفہ سارا فریریئر مختصر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھتی ہیں کہ سازش انٹرنیٹ کا پسندیدہ کھیل ہے۔ سازش شروع ہونے کے بعد مرکزی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ پچھلے ہفتے میری ایکس کی فیڈ پر زیادہ تر مواد اسی کے بارے میں تھا اور اس میں سے کوئی بھی صحیح نہیں تھا۔ یہ صرف وہی چیز ہے جسے اب لوگ اپنی تفریح اور اپنے فالوز کے لیے کرتے ہیں۔
ان واقعات کے بعد شاہی محل نے 10 مارچ کو کیٹ اور اس کے بچوں کی ایک تصویر جاری جس کے متعلق بعد ازاں یہ تسلیم کیا گیا کہ اس میں ڈیجیٹل کی مدد سے ردو بدل کیا گیا تھا۔
امریکی ریاست میساچوسیٹس کے شہر بوسٹن میں قائم نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے پروفیسر پیٹر مینکوسی کہتے ہیں کہ کیٹ کے بارے میں موجود خلا کو، زندگی کے کچھ ثبوت فراہم کر کے، معلومات کے کچھ ٹکڑے ملا کر اور حتیٰ کہ بالکونی میں کھڑی ہو کر ہاتھ ہلانے والی کیٹ کی فوٹیج کے ذریعے بھر دیا گیا۔
لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ بادشاہ چارلس کینسر سے لڑ رہے ہیں، لیکن یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ انہیں کس قسم کا کینسر ہے۔ اس راز داری نے لوگوں کو اس بارے میں اپنی تشخیص کرنے پر مائل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ انسانی فطرت ہے اور بہت سی کمپنیوں کی بھی فطرت ہے کہ جب انہیں کوئی بری خبر ملتی ہے تو وہ اس پر قیاس آرائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن توقع ہے کہ یہ کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
لندن کے کنگز کالج میں ڈس انفارمیشن اسٹڈیز کے پروفیسر آرلنگٹن کہتے ہیں کہ افواہوں اور سازشی نظریات کو نظر انداز کرنے کے باوجود اس بارے میں فوری طور پر واضح اور قابل تصدیق معلومات کے ساتھ جواب دینا بہتر عمل ہے۔ کیونکہ ایک بار جب لوگ یہ قیاس کرنے لگیں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں تو انہیں یقین دلانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
ٹائمز آف لندن کے کالم نگار ہیوگو رفکنڈ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ آپ برطانوی اخبارات کو پرنس اور پرنسیس آف ویلز پر ہونے والے مصائب کا ذمہ دار نہیں ٹہرا سکتے۔ صرف اس وجہ سے کہ پرنسیس نے عوام کے لیے ایک ایسی تصویریں جاری کیں جن میں ردو بدل کیا گیا تھا، جس کی وجوہات اس وقت واضح نہیں ہیں۔ یہ معروضی طور پر اپنی جانب کھینچنے والی دلکش کہانی ہے۔ لیکن جہاں تک سازشی نظریات اور قیاس آرائیوں کی بات ہے تو آپ اس پر بحث کر سکتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اخبارات کو یہ ظاہر کرنا چاہیے تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے اپنے کالم میں آگے چل کر لکھا ہے کہ یہ چیز ہمارے ذریعے نہیں ہوئی، بلکہ یہ آپ کے ذریعے ہوئی۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)