|
وزیرِ اعظم نریندر مودی اتوار کو اپنی تیسری مدت کے لیے حلف اٹھانے والے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے بھارتی انتخاب میں اپنے اتحاد کی کامیابی کا اعلان کرنے کے بعد آئندہ مدت کے ایجنڈے سے متعلق چند نکات کا ہی تذکرہ کیا۔ تاہم انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ملک کی دفاعی قوت بڑھانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
نریندر مودی کی جانب سے بیان کردہ ترجیحات کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے اچھی خبر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہند بحر الکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی بحری قوت اور توسیع پسندانہ عزائم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بھارت سے دفاعی تعلق خطے میں طاقت کے توازن کے لیے اہم ثابت ہو گا۔
اتنخابی نتائج کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہیڈ کوارٹر کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ حکومت دفاعی پیداوار اور برآمدات پر فوکس کرے گی۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ بھارت اب ہتھیاروں کی درآمد پر انحصار کم کرے گا اور ’ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک دفاعی شعبے میں خود کفیل نہیں ہو جاتے۔‘
وزیرِ اعظم مودی کے دور میں بھارت اور امریکہ کے دفاعی تعلقات میں بالخصوص سلامتی امور سے متعلق ڈائیلاگ فورم ’کواڈ‘ کے ذریعے غیر معمولی وسعت آئی ہے۔ اس گروپ میں آسٹریلیا اور جاپان بھی شامل ہیں۔
دفاعی تعلقات میں بہتری دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ ان میں امریکہ کا یہ مفاد ہے کہ چین جیسی قوت کے پڑوس میں اس کا بھارت جیسا مضبوط اتحادی ہے۔ کیوں کہ امریکہ چین کو اپنے لیے ایک ’بڑھتے ہوئے چیلنج‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔
دوسری جانب بھارت کو اپنے سے زیادہ طاقتور حریف چین کے مقابلے میں امریکہ جیسی عسکری قوت کی حمایت مل رہی ہے۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات کے 'غیر متوقع' نتائج؛ مسلمان اور دلت ووٹرز کا کیا کردار رہا؟’بھارت فرنٹ لائن اسٹیٹ‘
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے لیے اس وقت بھارت فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ بحرِ ہند میں بھارتی نیوی ایک بڑی قوت ہے۔
صدر بائیڈن نے اتنخابات میں کامیابی کی مبارک باد کے لیے جب وزیرِ اعظم مودی کو ٹیلی فون کیا تو اس گفتگو میں بھی دفاعی امور ان کے ایجنڈے میں سرِ فہرست تھے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹیلی فونک رابطے میں ’’دونوں رہنماؤں نے جامع اور اسٹریٹجک تعلقات مزید گہرے کرنے اور ہند بحر الکاہل خطے کو مستحکم، نقل و حرکت کے لیے آزاد رکھنے کے مشترکہ وژن پر زور دیا۔‘‘
وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان جلد ہی نئی حکومت کے ساتھ بھارت امریکہ تعلقات سے متعلق ترجیحات پر تبادلۂ خیال کے لیے نئی دہلی کا دورہ کریں گے۔
نریندر مودی کے دوسرے دورِ حکومت میں گزشتہ ایک برس کے دوران دفاعی پالیسی کا فوکس چین پر رہا۔ یہ تبدیلی 2020 کو گلوان وادی میں دونوں ممالک کے درمیان متازع سرحدی ریجن میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد آئی تھی۔ ان جھڑپوں میں 20 بھارتی فوجوں کی جان گئی تھی۔
لندن کے ایک تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر وراج سولنکی کا کہنا ہے کہ چین وسیع المدتی اعتبار سے بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک چیلنج ہے۔
ان کے مطابق بھارت اسی بنیاد پر کئی دفاعی پارٹنرشپس بنا رہا ہے یا ہند بحرالکاہل خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔
بیجنگ کے بھارت کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور چین مسلسل بھارت کے ہمسایہ ممالک نیپال، بنگلہ دیش کے علاوہ مالدیپ اور سری لنکا سے بھی دفاعی تعلقات بڑھا رہا ہے۔
SEE ALSO: بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے باوجود بی جے پی کو ایودھیا میں شکست کیوں ہوئی؟وراج سولنکی کا کہنا ہے کہ چین ان ممالک سے رشتے مضبوط کرنے سے بڑھ کر خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کے بقول آئندہ چند برسوں میں بحرِ ہند میں چین کے ساتھ مسابقت ہی بھارت کی دفاعی پالیسی کا محور ہو گی۔
وزیرِ اعظم مودی کو انتخابی نتائج پر مبارک باد کے پیغام میں چینی دفترِ خارجہ کی ترجمان ماؤننگ کا کہنا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان جامع اور مضبوط تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔ چین بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس بار چین کے بیان میں وہ گرم جوشی نہیں پائی جاتی جو 2019 کے الیکشن میں مودی کی کامیابی کے بعد چین نے جاری کیا تھا۔
چین اور مودی کے سیاسی چیلنجز
گزشتہ دو انتخابات میں نریندر مودی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن 2024 کے انتخابات کے بعد وہ نہ صرف اتحادیوں پر انحصار کرنے کے لیے مجبور ہیں بلکہ انہیں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط حزبِ اختلاف کا بھی سامنا ہو گا۔
تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس مودی کی جانب سے دفاعی اصلاحات کو چیلنج نہیں کرے گی۔ البتہ ماضی میں وہ چین سے سرحدی تنازعات میں مودی حکومت کے طرزِ عمل کی شدید ناقد رہی ہے۔ ان کے بقول، اس مدت میں یہ تنقید مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
وزارتِ دفاع کی ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے بیدی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت لداخ کے معاملے پر پوری طرح حقائق نہیں بتا رہی یا صورتِ حال پر بہت محتاط انداز میں بات کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حزبِ اختلاف حکومت سے لداخ کے معاملے پر دو ٹوک انداز میں حقائق بتانے کے لیے زور دے گی۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات میں منقسم مینڈیٹ: ’مودی اپنی مرضی سے حکومت نہیں چلا پائیں گے‘دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری
مودی فوج کے ماڈرنائزیشن پروگرام کے تحت دفاعی پیداوار میں نجی شعبے کو لانا چاہتی ہے۔ اس سے قبل یہ شعبہ صرف حکومت کے تحت چلنے والے اداروں کے پاس تھا۔ اس کے علاوہ مودی حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو اس شعبے میں سرمایہ کاری اور بھارت میں آ کر پیداوار کرنے کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔
بھارت نے 2022 میں مقامی سطح پر تیار ہونے والا طیارہ بردار بحری بیڑہ بھی بنایا تھا جسے چین کی بحری قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم قدم قرار دیا گیا تھا۔
سولنکی کے مطابق بھارت کے زیادہ تر ہتھیار اور جنگی ساز و سامان روسی ساختہ ہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد ان کی فراہمی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی بھارت اپنی دفاعی ضروریات کے لیے امریکہ، فرانس، اسرائیل اور دیگر ممالک کی جانب بڑھ رہا ہے۔
بھارت سے دفاعی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے واشنگٹن نے بھی ایک معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے تحت جنرل الیکٹرک اور ہندوستان ایئروناٹکس مل کر جنگی طیاروں کے انجن تیار کریں گے۔
گزشتہ ہفتے سنگاپور میں خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا تھا کہ ہمارے بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور یہ پہلے کی بہ نسبت بہت مضبوط ہیں۔
اس خبر کا مواد ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔