روس کے ایک حراستی مرکز میں یوکرین کے کچھ شہری سخت سردی میں علی الصبح بیدار ہوئے اور ایک ہی غسل خانے کے سامنے قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ پھر انہیں بندوق کی نوک پر مویشیوں کے ٹریلر میں لاد دیا گیا۔ ان شہریوں نے اگلے بارہ گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ وقت روسی فوجیوں کے لیے اگلے مورچوں پر خندقیں کھودنے میں گزارا۔
ان میں سے متعدد شہریوں کو روسی فوجی یونیفارم پہنایا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنا یا جا سکتا تھا۔ شہر کا ایک سابق منتظم بڑے سائز کے جوتے پہنے ان کی نگرانی کرتا رہا اور جب دن بیتا توسخت مشقت کی وجہ سے ان کے ہاتھ برف سے منجمد پنجوں جیسے ہو گئے تھے۔
اس مقام سے قریب ہی زاپورژیا کے مقبوضہ علاقے میں مزید یوکرینی شہریوں نے اپنے ان ساتھی قیدیوں کے لیے منجمد زمین میں اجتماعی قبریں کھودیں جو زندہ نہیں بچ سکے تھے۔ ایک شخص نے کھدائی سے انکار کیا تو اسے موقع پر ہی گولی مار دی گئی اور یوں قبر کے لیے ایک اور لاش کا اضافہ ہو گیا۔
یہ منظر نامہ ہے روس اور اس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں ہزاروں یوکرینی شہریوں کا جنہیں حراست میں لے کر روس کی جیلوں میں بنائے جانے والے نئے حصوں یا گندے تہ خانوں میں رکھا جا رہا ہے۔ روسی قانون کے تحت ان میں سے بیشتر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
روس ممکنہ طور پر مزید ہزاروں افراد کو قید میں رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ خبر رساں ادارے دی ایسوسی ایٹڈ پریس یعنی اے پی نے روسی حکومت کی دستاویز حاصل کی تھی جس کے مطابق مقبوضہ یوکرین میں 2026 تک جیل کی پچیس نئی کالونیاں اور چھ دیگر حراستی مراکز کی تیاری کے منصوبوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے مئی میں ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس میں روس کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مارشل لاء والے علاقوں سے لوگوں کوماشل لاء کے بغیر روس میں بھیج سکتا ہے۔
یوکرین کے تمام مقبوضہ علاقوں میں مارشل لا ءنافذ ہے۔ اس حکمنامے کے تحت ان یوکرینیوں کو ملک بدر کرنا آسان ہو جاتا ہے جو روسی قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور یہ صورتحال اے پی کےمتعدد دستاویزی کیسوں میں سامنے آئی ہے ۔
متعدد شہریوں کو مبینہ طور پر یوکرینی زبان بولنے یا محض نوجوان ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے اور اکثر انہیں بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا جاتا ہے۔
کچھ افراد پر دہشت گرد، جنگجو، یا ایسے لوگ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جو’’خصوصی فوجی آپریشن کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔‘‘ روس کی فوج سیکڑوں افراد کو جبری مزدوری ، خندقیں کھودنے یا اجتماعی قبروں کی کھدائی کے لیے استعمال کرتی ہے۔
تشدد معمول کی بات ہے جس میں بار بار بجلی کے جھٹکے، مار پیٹ اور مصنوعی گھٹن جیسے حربے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ متعدد سابق قیدیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے اموات کا مشاہدہ کیا ہے۔ جون کے اواخر میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ستتر شہری قیدیوں کو فوجی عدالتوں نے پھانسی کی سزا دی جبکہ تشدد کی وجہ سے ایک شخص کی موت ہوئی ۔
روس یہ بات تسلیم ہی نہیں کرتا کہ وہ شہریوں کو حراست میں رکھتا ہے۔ اس لیے اسے اس سلسلے میں وجوہات بتانے کی بھی ضرورت نہیں ۔ لیکن قیدی بنائے جانے والے یوکرینی شہریوں کو مستقبل میں روسی فوجیوں کے تبادلے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عام شہریوں کو اگلے مورچوں کے قریب انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اے پی نے درجنوں افراد سے بات کی ہے جن میں بیس ایسے افراد شامل ہیں جنہیں حراست میں رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سابق جنگی قیدیوں، زیر حراست درجن بھر سے زائد شہریوں کے اہل خانہ، یوکرین کے دو انٹیلی جنس اہلکاروں اور ایک حکومتی مذاکرات کار سے بھی بات کی گئی ہے ۔
ان کی بتائی ہوئی تفصیلات، سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر ، سوشل میڈیا، سرکاری دستاویزات اور ریڈ کراس کی طرف سے بھیجے گئے خطوط کی کاپیاں، شہریوں کو حراست میں رکھنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی ایسی مثالیں ہیں جو وسیع پیمانے پر ایسے روسی نظام کی تصدیق کرتی ہیں جو جنیوا کنونشنز کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔
’’یہ انسانی اسمگلنگ کا کاروبار ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے سٹی ایڈمنسٹریٹر اولینا یاہوپووا کا جنہیں زاپور ژیا میں روسیوں کے لیے خندقیں کھودنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اگر ہم اس کے بارے میں بات نہ کریں اور خاموش رہیں تو آئندہ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جن میں میرا پڑوسی، کوئی جاننے والا یا کوئی بچہ شامل ہو سکتا ہے۔‘‘
دکھائی نہ دینے والے قیدی
جیل کالونی نمبر دو کے احاطے میں نئی تعمیر کی گئی عمارت کم از کم دو منزلہ اونچی ہے جسے ایک موٹی دیوار سے مرکزی جیل سے الگ کیا گیا ہے۔اے پی کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے مطابق روس کے مشرقی علاقے روستوف ک میں واقع اس عمارت میں فروری 2022 میں جنگ شروع ہونے کے بعد اضافہ کیا گیا ۔
سابق قیدیوں ، لاپتہ افراد کے اہل خانہ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور روسی وکلاء کے مطابق اس میں سینکڑوں یوکرینی شہریوں کو آسانی سے رکھا جا سکتا ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ وہاں بند ہیں۔ انسانی حقوق کے دو جلاوطن روسی علمبرداروں نے بتایا ہے کہ فوجیوں اور بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے اس عمارت کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔
روس میں کم از کم چار ہزار شہری قید ہیں اور کم از کم اتنے ہی مقبوضہ علاقوں کے ارد گرد رکھے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے ایک جلاوطن روسی کارکن ولادی میر اوسیچکن نے اے پی کو 2022 کی ایک روسی جیل کی دستاویز دکھائی جس میں کہا گیا تھا کہ یوکرین میں ’’خصوصی فوجی آپریشن کے مخالف ‘‘ ایک سو انیس افراد کو ہوائی جہاز کے ذریعے روسی علاقے وورونز کی مرکزی جیل کالونی میں منتقل کیا گیا تھا۔
یوکرین کی حکومت کا خیال ہے کہ امکان ہے کہ تقریباً دس ہزار شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یوکرین کے مذاکرات کار اولیکسینڈر کونونیکو بتاتے ہیں کہ عزیزو اقارب کی رپورٹوں اور رہائی کے بعد کچھ شہریوں کے انٹرویوز کے مطابق سینکڑوں یوکرینی شہری فوجی قیدیوں کے تبادلے میں واپس آئے ہیں ۔
اگست 2022 میں خیرسن کے علاقے سے دو افراد کی حراست سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان خاندانوں کے اپنے پیاروں کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے جو روسی تحویل میں ہیں ۔
خندقوں میں غلام
سیکڑوں شہریوں کی منزل ممکنہ طور پر جیلوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور یہ مقبوضہ یوکرین کی خندقیں ہیں ۔ روسی تحویل سے آزاد ہونے والے متعدد افراد نے بتایا کہ یہاں وہ روسی فوجیوں کے لیے تحفظ فراہم کرنے پر مجبور ہیں ۔ ان میں پچاس سالہ سول ایڈمنسٹریٹر یاہوپووا بھی تھیں جنھیں اکتوبر 2022 میں زاپورژیا کے علاقےسے حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کی حراست کی ممکنہ وجہ یوکرین کے ایک فوجی سے ان کی شادی تھی ۔
بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت یاہوپووا ایک شہری ہیں ۔لیکن فوجیوں اور شہریوں کے درمیان فرق کو اس جنگ میں ثابت کرنا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ یوکرین نے اپنے تمام شہریوں سے جنگ میں مدد کی اپیل کی ہے ۔ روسی فوجیوں نے اکتوبر میں یاہوپووا کو ان کے گھر سے حراست میں لیا اور اس کے شوہر کے بارے میں معلومات کا مطالبہ کیا اور ان پر تشدد کیا ۔
یاہوپووا نے مارچ کے وسط تک ایک درجن سے زیادہ یوکرینی شہریوں کے ساتھ خندقیں کھودنے کا کام ختم کیا، جن میں کاروباری مالکان، ایک طالب علم، ایک استاد اور یوٹیلیٹی ورکرز شامل تھے۔
وہ دور سے دوسرے عملے کو دیکھ سکتی تھیں جن کی نگرانی مسلح محافظ کرتے تھے ۔ زیادہ تر روسی فوجی یونیفارم اور جوتے پہنے ہوئے تھے، اور اس خوف میں رہتے تھے کہ یوکرینی توپ خانہ انہیں دشمن سمجھے گا۔ اولینا یاہوپووا نے روسی فوجیوں کی حراست سے فرار ہونے کے بعد 7 جون 2023 کو خارکیو، یوکرین میں آرتھر یاہوپوف سے شادی کی ۔
SEE ALSO: روس کے جنگی جرائم کے ثبوت اکٹھے کرتی یوکرینی مصنفہ کی ہلاکتتشدد بطور پالیسی
مقبوضہ علاقوں میں اے پی نے جن افراد سے انٹرویو کیے انہوں نے ایذا رسانی اور تشدد کے بارے میں بتایا جو حراست کے دوران ان سے کیا گیا ۔ اے پی نے یوکرین کے تفتیش کاروں سے حاصل کی گئی تقریباً ایک سو تصاویر میں خیر سن، کیف اور خارکیو کے آزاد کرائے گئے علاقوں سے ملنے والے تشدد کے آلات شامل ہیں جن کے بارے میں سابق شہری قیدیوں نے بار بار بیان کیا ہے۔
اینا ووئیکو کے والد ان شہریوں میں سے ایک تھے جنہیں گزشتہ سال مارچ میں حراست میں لیا گیا تھا۔ مئی 2022 تک وہ سینکڑوں کلومیٹر دور کرسک، روس کی ایک جیل میں تھے ۔ ان کی بیٹی کو چھ ماہ بعد ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا خط ملا ہے ۔جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کے سوا کچھ نہیں بتایا کہ وہ زندہ ہیں لیکن پھر کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’میں روزانہ ان کے بارے میں سوچتی ہوں ۔ ’’ ایک سال بیت گیا ہے، ایک سال سےبھی زیادہ۔ اب مزید کتنا وقت گزرنا ہے؟‘‘
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں )