ویب ڈیسک۔جب نیٹو کے ان ارکان پر تنقید ہوتی ہے جو دفاع پرمناسب خرچ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو نیٹو کا چھوٹا سا ملک لکسمبرگ آسان ہدف ثابت ہوتا ہے۔ لکسمبرگ نیٹو کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ ملک یورپ میں اقتصادی ترقی کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔
تاہم تنظیم کے اندازوں کے مطابق اس سال کے دوران وہ اپنی مسلح افواج پر مجموعی ملکی پیداوار کا صرف 0.72 فیصد خرچ کررہا ہے۔اس حوالے سے یہ اکتیس رکنی نیٹو اتحاد میں سب سے نیچے ہے۔
روس کی جانب سے یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا سے الحاق کے اعلان کے بعد 2014میں نیٹو اتحاد نے عہد کیا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نیٹو کے اخراجات میں کٹوتیوں کو روک دیا جائے گا، اپنے قومی فوجی بجٹ کو بڑھایا جائے گا اور 2024 تک دفاع پر مجموعی ملکی پیداوار یا جی ڈی پی کادو فیصدحصہ خرچ کیا جائے گا ۔
اس وقت جبکہ 2024 شروع ہونے میں چھ ماہ سے کم وقت باقی ہے، یوکرین کے حوالے سے یورپ کو کئی عشروں کے مقابلے میں سب سے بڑی زمینی جنگ کا سامنا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے نیٹو ہم منصب منگل سے شروع ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس میں اتحاد کے اخراجات کے لئے نیا ہدف طے کریں گے۔نیٹو کا دو روزہ اجلاس لتھوانیا کے دارالحکومت ولنیئس میں شروع ہو رہا ہے ۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینز سٹولٹن برگ نے جمعہ کو کہا کہ سربراہی اجلاس میں اتحادی ممالک دفاع پر سالانہ جی ڈی پی کا کم از کم دو فیصد حصہ مختص کرنے کا عہد کریں گے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی جائے گی۔
جی ڈی پی کا دو فیصد حصہ مختص کرنے کے فیصلے کا کسی حقیقی سیکورٹی خطرے سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ یہ ہدف امن کے دور میں قائم کیا گیا تھا اور اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں، اور لکسمبرگ کا معاملہ اس بارے میں ایک سود مند مثال ہے کہ یہ گائیڈ لائن کس حد تک مؤثر ہو سکتی ہے۔
امریکی اور یورپی قانون سازوں کی طرف سے بجٹ کی ترجیحات کے بارے میں کئے گئے سوال پر لکسمبرگ کے وزیر دفاع فرانسواں باؤش نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوانیا کی اقتصادی ترقی لکسمبرگ کے مساوی ہے تو انہیں دو فیصدکی حد تک پہنچنے کے لیے اس وقت کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔
یہ تین بالٹک ریاستیں جغرافیائی طور پر روس اور یوکرین کے بہت قریب ہیں اور تاریخی طور پروہ اپنے بڑے پڑوسی سے لاحق ممکنہ خطرے سے آگاہ بھی ہیں - نیٹو کے اندازوں کے مطابق اس سال گیارہ ممالک میں سے ،سبھی اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دو فیصد سے زیادہ خرچ کریں گے۔
فرانس اور بیلجیم کے درمیان واقع لکسمبرگ کو آبادیاتی چیلنجز کا بھی سامنا ہے ۔ اس کے تقریباً چھ لاکھ تیس ہزار پاسپورٹ ہولڈرز میں سےبنیادی طور پر صرف تین لاکھ پندرہ ہزار کا تعلق لکسمبرگ سے ہے۔ پھر اٹھارہ سے چالیس سال کی عمر تک کے لوگوں میں فوجی خدمات کے لئے وقف تعداد اب بھی کم ہے۔ ملک کی فوج میں لگ بھگ ایک ہزار افراد بھرتی ہیں۔ یہ کچھ رکن ملکوں کی طاقت کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن نیٹو کے رکن ملک برطانیہ کی مسلح افواج میں آبادی کے اعتبار سے خدمات انجام والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ، لکسمبرگ میں بے روزگاری کم ہے۔ نسبتاً زیادہ تنخواہ والی نوکریوں کےوافر موقع ہیں تو پھر لوگ فوج میں کیوں شامل ہوں؟ لکسمبرگ کے وزیر دفاع فرانسواں باؤش کا کہنا ہے کہ ’’وہ فوجیوں کی تعداد میں اضافہ چاہتے ہیں ۔ تاہم یہ آسان نہیں ہے۔‘‘
لکسمبرگ نے گزشتہ سال اپنے دفاعی بجٹ کا سولہ فیصد سے زیادہ یوکرین کی امداد پر خرچ کیا ۔ وزیر اعظم کساوئیے بیٹل کی حکومت نیٹو کی منصوبہ بندی کی ضروریات کے تمام اہداف کو بھی پورا کرتی ہے۔باؤش کہتے ہیں کہ ہم ہر وہ چیز پوری کر رہے ہیں جس کا ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے اور لکسمبرگ 2028 تک دفاعی اخراجات کو دوگنا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
نیٹو کے منصوبہ بندی کے اہداف کو پورا کرنے والے ملکوں میں جرمنی بھی شامل ہے ۔جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نےگزشتہ سال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اعلان کیا کہ ان کی حکومت دفاع پر اضافی ایک سو بلین یورو (ایک سو نو بلین ڈالر ) خرچ کرے گی جس میں اعلیٰ درجے کے امریکی ساختہ F-35 لڑاکا طیاروں کی خریداری بھی شامل ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ولنیئس میں ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس میں نیٹو کے بجٹ کے مسئلے کے حل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں نیٹو اتحاد کے دو رکن ملکوں لکسمبرگ اور جرمنی کو ہدف تنقید بنایا گیا تھاکہ وہ یکساں طور پر نیٹو اتحاد کی جانب اپنے فرائض ادا نہیں کرتے ۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے یہ تحفظات جاری رہیں گے۔ نیٹو کے ایک سینئر اہلکار نے نیٹو کے دفاعی اخراجات کے لیے کیے گئے عہد کی وضاحت کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’ ہم ایسی قانون سازی نہیں کر سکتے جس میں لوگوں کو رقم خرچ کرنے کا پابند کیا جا سکے۔ ہم ایک بین الحکومتی اتحاد ہیں جو اجتماعی اہداف کی پاسداری سے وابستہ ہے۔‘‘
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں )