پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ایک قصبے بارکھان کے قریب ایک کنوئیں سے تین لاشیں دریافت ہوئیں ہیں۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ان میں سے دو لاشیں مردوں کی اور ایک عورت کی ہے، جنہیں کنوئیں سے نکال لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق لاشوں کو اسپتال بھجوایا جا رہا ہے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تینوں افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ جب کہ ان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔
جب کہ دوسری جانب خان محمد عرف اسماعیل مری نے کہا ہے کہ ان تین لاشوں میں سے دو میرے بیٹو ں کی ایک میری اہلیہ کی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں ایک میرا بڑا بیٹا نواز ہے جس کی عمر 16 سال تھی جب کہ دوسری لاشں میرے دوسرے بیٹے عبدالقادر کی ہے۔ کنوئیں سے ملنے والی تیسری لاش میری اہلیہ بی بی گراناز کی ہے۔
عبدالرحمٰن کھیتراناسماعیل خان مری نے یہ الزام بھی لگایا کہ صوبائی وزیر عبدالرحمٰن کھیتران نے ان کے خاندان کے افراد کو اغوا کرایا تھا۔
انہوں نے چند روز پہلے اس کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج بھی کیا تھا اور اعلیٰ حکام سے انہیں رہا کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں محمد خان مری کے بیٹوں اور اہلیہ کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا خون ان سب کے ذمے ہے جو انہیں ایک نجی جیل سے رہائی دلانے میں ناکام رہے۔
خان محمد مری نے بتایا کہ پانچ افراد اب بھی کھیتران کے نجی قید خانے میں موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ کا اس الزا م کے حوالے سے متعلقہ افراد سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ معاشی اعتبار سے صوبے کا زیادہ ترحصہ پس ماندہ ہے۔ اور علیحدگی کی تحریکوں کی وجہ سے یہاں گاہے بگاہے دہشت گردی اور تخریب کار ی کے واقعات کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔
اس صوبے کا ایک بڑا مسئلہ جبری گمشدیاں ہیں۔ جس کے حوالے سے نہ صرف صوبے میں بلکہ وفاقی دارالحکومت میں بھی احتجاجی کیمپ لگائے جاتے رہے ہیں۔
حکومت نے گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک کمشن قائم کیا تھا جس کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر افراد کو تلاش کر کے اپنے خاندانوں سے ملا دیا گیا ہے۔
جبری گمشدکیوں کا الزام عموماً سیکیورٹی اداروں پر عائد کیا جاتا ہے جب کہ وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔