بھارت کی سپریم کورٹ کے نو ججز نے منگل کو اپنے عہدوں کا حلف اُٹھا لیا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ بیک وقت تین خواتین ججز بھی بھارت کی سب سے بڑی عدالت میں بطور جج تعینات کی گئی ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے عدالت عظمیٰ کے آڈیٹوریم میں نئے جج صاحبان سے حلف لیا جب کہ اس تاریخی موقع کو سرکاری ٹی وی نے براہِ راست نشر کیا۔
اس سے قبل ججز چیف جسٹس کے چیمبر میں حلف لیتے رہے ہیں، لیکن پہلی بار کسی آڈیٹوریم میں حلف لیا گیا۔
عدلیہ سے وابستہ افراد خواتین ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ توقع ہے کہ اب خواتین کو بھی ان کا حق ملنے لگا ہے۔
حلف برداری کے ساتھ ہی چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججز کی مجموعی تعداد 34 ہو گئی ہے۔ ججز کی یہ آسامیاں گزشتہ 21 ماہ سے خالی تھیں۔
سن 2027 میں بھارت کی پہلی خاتون چیف جسٹس بنیں گی
حلف اُٹھانے والے ججز میں خاتون جج جسٹس بی وی ناگ رتنا بھی ہیں۔ وہ سابق چیف جسٹس ای ایس وینکٹ رمیا کی صاحبزادی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق وہ 23 ستمبر 2027 کو چیف جسٹس آف انڈیا کے منصب پر فائز ہوں گی۔ وہ بھارت کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہوں گی۔ تاہم ان کی مدت انتہائی مختصر یعنی صرف ایک ماہ سے زائد ہو گی۔ وہ 29 اکتوبر 2027 تک چیف جسٹس کے منصب پر فائز رہیں گی۔
حلف اُٹھانے والے دیگر ججز میں جسٹس شری نواس اوکا، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس جتیندر کمار مہیشوری، جسٹس بیلا ایم ترویدی، جسٹس پی ایس نرسمہا، جسٹس سی ٹی روی کمار، جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس ہیما کوہلی شامل ہیں۔
ماہرِ قانون جسٹس (ریٹائرڈ) سہیل اعجاز صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار نو ججز نے بیک وقت حلف لیا ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت نے 'کالیجیم' کی سفارش کو تین دن کے اندر منظور کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 70 برس میں پہلی بار سپریم کورٹ میں بیک وقت تین خاتون ججز کا تقرر ہوا ہے اور پہلی بار ایک خاتون چیف جسٹس آف انڈیا کے منصب پر فائز ہوں گی۔
ان کے مطابق عدلیہ میں پہلے خواتین کو کم نمائندگی ملتی تھی اب زیادہ ملنے لگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ لہٰذا ان کو بااختیار بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ صنفی امتیاز ختم کیا جانا چاہیے۔
ان کے بقول بیک وقت تین خاتون ججز کی حلف برداری 'کالیجیم' کی سوچ میں تبدیلی کی غماز ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔
بھارتی عدلیہ میں ججز کا تقرر سپریم کورٹ 'کالیجیم' کی سفارش پر ہوتا ہے۔ وہ ججز کے نام مرکزی حکومت کو بھیجتا ہے جسے حکومت کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد تقرری عمل میں آتی ہے۔
یہ 'کالیجیم' چیف جسٹس اور چار سینئر ججز پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ مختلف ہائی کورٹس میں ججز کی سنیارٹی، ان کی مجموعی کارکردگی، ان کی ایمان داری اور ان کے اخلاق کو سامنے رکھ کر سفارش کرتا ہے۔
جسٹس (ریٹائرڈ) سہیل اعجاز صدیقی نے بتایا کہ پہلے خواتین اس پیشے میں بہت کم آتی تھیں لیکن اب وہ زیادہ تعداد میں آ رہی ہیں۔ وہ محنت کرتی ہیں اور ان کو شہرت بھی مل رہی ہے۔ وہ اپنی اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ انہیں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں بھی جگہ مل رہی ہے۔
ججز کے انتخاب میں ناانصافی کا الزام
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے رحمان ایڈوکیٹ نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی واقعہ تو ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ججز کے انتخاب میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا ہے۔
ان کے بقول کئی سینئر ججز کو نظرانداز یا سپرسیڈ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اب ججز کے انتخاب میں سیاست کا رنگ کا نظر آ رہا ہے۔
ان کے مطابق 'کالیجیم' کی جانب سے بغیر کوئی وجہ بتائے سینئر ججز کو نظرانداز کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ حالاں کہ موجودہ چیف جسٹس کے بارے میں لوگوں کی رائے بہت اچھی ہے۔ وہ حکومت کی بہت سی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔ لیکن چیف جسٹس تنہا ججز کا انتخاب نہیں کرتا۔
ان کے بقول 'کالیجیم' نے حال ہی میں ہائی کورٹس کے ججز کی ایک لسٹ حکومت کو بھیجی تھی جسے اس نے واپس کر دیا۔ حکومت نظرِ ثانی کے لیے سفارش واپس کر سکتی ہے۔ لیکن حتمی فیصلہ 'کالیجیم' کا ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ججز کے نام تک 'کالیجیم' کو بھیجے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کو 'کالیجیم' کی فہرست میں شامل کریں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جن تین خواتین ججز کو مقرر کیا گیا ہے ان میں سے دو کو سینئر مرد ججز کے مقابلے میں ترجیح دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا یہ موٌقف رہا ہے کہ ججز کا تقرر اہلیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس کے مطابق اگر کسی کا نام واپس کیا جاتا ہے تو اس کی معقول وجہ ہوتی ہے۔
جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کے مطابق اگر کوئی جج سینئر ہے مگر اس کی ایمان داری مشکوک ہے تو 'کالیجیم' کو اختیار ہے کہ اس کی جگہ پر دوسرے جج کی سفارش کرے۔ 'کالیجیم' بار کونسل کے وکلا میں سے بھی انتخاب کرتا ہے۔
SEE ALSO: بھارت کی ریاست یو پی کی ’ٹو چائلڈ پالیسی‘؛ ماہرین اس کے خلاف کیوں ہیں؟ان کے بقول حکومت کو 'کالیجیم' پر برتری حاصل نہیں ہے۔ حکومت کو اس کی سفارش تسلیم کرنا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حکومت نے اپنے پسندیدہ جج کا نام بھیجا ہو اور کالیجیم نے اسے منظور کر لیا ہو۔
ساڑھے چار کروڑ کیسز زیرِ التوا
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے 18 جولائی کو ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت کی عدالتوں میں ساڑھے چار کروڑ کیسز زیرِ التوا ہیں۔
ان کے مطابق کرونا وبا سے عدالتوں کا کام متاثر ہو جانے کی وجہ سے گزشتہ مارچ سے لے کر ایک برس کے درمیان زیرِ التوا کیسز میں 19 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
نیشنل جوڈیشل ڈاٹا گرڈ اور سپریم کورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع اور ماتحت عدالتوں میں 3.9 کروڑ کیسز زیرِ سماعت ہیں جب کہ 58 لاکھ سے زائد کیسز مختلف ہائی کورٹس میں اور 69 ہزار سے زائد سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے 2019 میں انگریزی اخبار ”دی ٹریبیون“ میں ایک مضمون لکھا تھا جس کے مطابق اگر نئے مقدمات قائم نہ ہوں تو بھی تمام عدالتوں میں جتنے مقدمات زیرِ سماعت ہیں انہیں نمٹانے میں 360 برس درکار ہوں گے۔
اے رحمان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ مختلف ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں میں سیکڑوں ججز کی آسامیاں خالی ہیں۔ اگر ان کو پُر کیا جائے تو مقدمات کے نمٹانے میں آسانی ہو گی۔
جسٹس سہیل اعجاز صدیقی ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ججز کی خالی جگہیں پُر کیے جانے کے بعد توقع ہے کہ زیرِ سماعت مقدمات کے جلد فیصلے ہوں گے۔
جسٹس عقیل قریشی کا تنازع
اے رحمان ایڈوکیٹ الزام عائد کرتے ہیں کہ جسٹس عقیل قریشی کو سنیارٹی کے باوجود سپریم کورٹ 'کالیجیم' نے اپنی فہرست میں شامل نہیں کیا۔
عدالتی فیصلوں پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ایم ودود ساجد نے کہا کہ جن نو ججز سے حلف لیا گیا ہے ان میں ایک بھی مسلمان جج نہیں ہے۔ حالانکہ تری پورہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عقیل قریشی اس کے اہل تھے۔ وہ ججز کی سنیارٹی میں آل انڈیا رینکنگ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ 'کالیجیم' نے 2019 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے ان کے نام کی سفارش کی تھی لیکن حکومت نے ان کے نام پر اعتراض کیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل دشینت دوے کا کہنا ہے کہ اگر 'کالیجیم' نے عقیل قریشی کے نام کی سفارش کی ہوتی تو یقینی طور پر حکومت اس پر اعتراض کرتی۔
تاہم اس معاملے میں حکومت کی جانب سے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔