بھارت میں پیگاسس کے جاسوسی کے معاملے، زرعی قوانین، کرونا وبا اور مہنگائی سمیت متعدد معاملات پر پارلیمان میں بحث کرانے کے حزبِ اختلاف کے مطالبے اور حکومت کے انکار کی وجہ سے پارلیمنٹ کے اجلاس میں تعطل برقرار ہے۔ جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے حکومت مخالف حکمتِ عملی مرتب کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا ایک ’بریک فاسٹ اجلاس‘ منعقد کیا۔
اجلاس میں کانگریس سمیت 15 سیاسی جماعتوں کے 100 سے زائد اراکینِ پارلیمنٹ نے شرکت کی اور متعدد معاملات پر بحث کرانے کے لیے حکومت کو مجبور کرنے کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا۔ جب کہ ایک مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
اجلاس میں راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں صرف ایک معاملہ ہے جو بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں متحد ہوں۔ عوام کی یہ آواز جتنی زیادہ متحد ہو گی اتنی ہی طاقتور ہوگی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے حامیوں کے لیے اس آواز کو دبانا اتنا ہی مشکل ہوگا۔
اجلاس میں کانگریس کے علاوہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی)، شیو سینا، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کمیونسٹ پارٹی (ماو نواز)، راشٹریہ جنتا دل، سماجوادی پارٹی، جھار کھنڈ مکتی مورچہ اور دیگر جماعتوں کے اراکین نے شرکت کی۔
اراکینِ پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد راہول گاندھی اور تمام اراکین پارلیمان سائیکل سے پارلیمنٹ ہاوس پہنچے۔ راہول گاندھی کی سائیکل پر مہنگائی کے خلاف پلے کارڈز آویزاں تھے۔ کانسٹی ٹیوشن کلب سے پارلیمنٹ ہاؤس تک چند فرلانگ کی مسافت طے کرنے کے دوران حکومت کے خلاف نعرہ بازی بھی ہوتی رہی۔
راہول گاندھی نے گزشتہ ہفتے بھی حزبِ اختلاف کی 14 جماعتوں کے ساتھ اجلاس کیا تھا اور مذکورہ امور پر بحث کرانے کے لیے حکومت کو مجبور کرنے کی حکمتِ عملی پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ اس موقع پر وہ ٹریکٹر چلا کر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس نے اسرائیل کی کمپنی این ایس او گروپ سے پیگاسس سافٹ ویئر خریدا ہے؟ اور اگر خریدا ہے تو کیا اس کی مدد سے مخصوص افراد کی جاسوسی ہوئی ہے؟
انھوں نے یہ الزام عائد کیا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پیگاسس سافٹ ویئر کو حزبِ اختلاف کے رہنماؤں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، ججز، کارپوریٹ اداروں اور دوسروں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔
ان کا یہ بھی الزام ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ امت شاہ نے اس ہتھیار کا استعمال جمہوری اور آئینی اداروں کے خلاف بھی کیا ہے۔ لہٰذا اس پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے پیگاسس، زرعی قوانین، کسانوں کی تحریک، مہنگائی اور کرونا وبا سمیت متعدد امور پر بحث کرانے کا مطالبہ مسلسل کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ مبینہ پیگاسس جاسوسی معاملے کی یا تو پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے یا پھر سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کرائی جائیں۔
کانگریس کے ترجمان اور سابق رکن پارلیمنٹ ایم۔ افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت سب سے اہم معاملہ پیگاسس جاسوسی اسکینڈل کا ہے۔ ان کے مطابق فرانس، اسرائیل اور دیگر ممالک نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں پیگاسس کی مدد سے لوگوں کی جاسوسی کی گئی۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کرائے۔
انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی پہنچ گیا ہے۔ سینئر صحافی این رام اور بعض دیگر صحافیوں نے، جن کی جاسوسی کا الزام لگایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ میں اس معاملے کو اٹھایا ہے۔ پانچ اگست کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ اس معاملے پر سماعت کرے گا۔ تو پھر پارلیمنٹ میں اس پر بحث کرانے سے حکومت کیوں بھاگ رہی ہے۔
ان کے مطابق اس معاملے میں سرکاری و غیر سرکاری اشخاص کی پرائیویسی اور نجی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں، ججوں، سرکاری افسران، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور یہاں تک کہ حکومت میں شامل بعض وزرا کی بھی جاسوسی یا نگرانی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی کمپنی این ایس او گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف حکومتوں کو ہی یہ سافٹ وئیر فروخت کرتی ہے۔ بھارت میں کس نے اسے خریدا؟ حکومت یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ پیگاسس کا معاملہ سیکیورٹی کا بھی مسئلہ ہے۔ بھارت کو دہشت گردی اور فرقہ واریت کا سامنا ہے اور ایسے میں اس جاسوسی کی وجہ سے ملک کی سیکورٹی کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
کانگریس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کا پارلیمنٹ میں بحث کرانے کی اجازت نہ دینا پارلیمانی روایات کے منافی ہے۔ اس کی وجہ سے عوامی نمائندوں کے حقوق مجروح ہو رہے ہیں۔
ان کے بقول حزبِ اختلاف کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مسائل کو اٹھائے اور حکومت سے جواب طلب کرے۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی حزبِ اختلاف پر پارلیمان کی کارروائی نہ چلنے دینے کا الزام عائد کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ حزبِ اختلاف تو چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ چلے۔ لیکن حکومت بحث کرانے کی اجازت نہ دے کر خود ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ پارلیمنٹ نہ چلے۔
حکومتی جماعت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی تو وہ بھی عوامی ایشوز کو ایوان میں اٹھاتی تھی۔ اگر اس کی آواز کو سننے میں تاخیر ہوتی تو وہ لوگ پارلیمنٹ میں ہنگامہ کرتے اور اسے چلنے نہیں دیتے تھے۔ آج جب وہی کام کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہیں تو ان پر الزام تراشی کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ حزبِ اختلاف کے اراکین کی جانب سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مسلسل ہنگامہ جاری ہے جس کی وجہ سے کارروائی میں تعطل ہے۔
خیال رہے کہ 19 جولائی سے پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کا آغاز ہوا ہے۔ البتہ یہ تیسرے ہفتے کا دوسرا دن ہے جب پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چل سکی ہے۔ حکومت نے ہنگامے اور شور شرابے میں بھی چند بل منظور کر لیے ہیں۔
پارلیمنٹ کا اجلاس 13 اگست تک چلنا ہے۔ لیکن باوثوق ذرائع کا خیال ہے کہ اس سے قبل ہی پارلیمنٹ کی کارروائی غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کی جا سکتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس دوران 107 گھنٹوں میں صرف 18 گھنٹے ہی ایوانوں میں کام ہو سکا ہے جس کی وجہ سے عوام کے ایک ارب 33 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
حکومت نے جاسوسی کے الزام کی تردید کی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اس معاملے پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اشون ویشنو نے جو بیان دیا ہے وہ کافی ہے۔ اس سے قبل بھی حکومت پر پیگاسس کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کا کہنا ہے کہ پیگاسس کا ایشو کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر اس معاملے پر بحث کرانے کے لیے تیار ہے۔
اسی دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں حزبِ اختلاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کی کارروائی چلنے نہیں دے رہی ہے۔ یہ جمہوریت اور عوام کی توہین ہے۔
یہ دوسرا موقع ہے جب وزیرِ اعظم نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل کے سلسلے میں حزبِ اختلاف پر تنقید کی۔
انھوں نے گزشتہ ہفتے حکمران اتحاد کے اراکین سے اپیل کی تھی کہ وہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے پر اپوزیشن کو بے نقاب کریں۔ انھوں نے خاص طور پر کانگریس پر سخت تنقید کی تھی۔
منگل کی صبح بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم نے اپوزیشن اراکین کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اسے جمہوریت اور آئین کی توہین قرار دیا ہے۔