امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اتوار کے روز سعودی عرب اور عراق کے تعلقات میں بہتری پر زور دیا، تاکہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کا تدارک کیا جا سکے۔
ریاض میں 'سعودی عرب عراق رابطہ کمیٹی' کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے، ٹلرسن نے سعودی بادشاہ سلمان اور عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی سے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے ''اچھے امکانات'' موجود ہیں۔
اِس ضمن میں، اُنھوں نے اگست میں دونوں ملکوں کے درمیان اہم سرحدی راستے کے دوبارہ بحال ہونے اور بغداد اور ریاض کے درمیان براہِ راست پروازیں پھر سے شروع ہونے کا ذکر کیا۔
ٹلرسن نے کہا کہ ''ہمیں توقع ہے کہ یہ دونوں باتیں تعلقات استوار کرنے اور کئی شعبہ جات میں تعاون کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں مزید بہتر نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوں کی۔''
اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ ''سعودی بادشاہت اور عراق کے بڑھتے ہوئے تعلقات ہماری اجتماعی سلامتی اور خوش حالی کے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور ہمیں اس میں خاص دلچسپی ہے''۔
امریکہ کے چوٹی کے سفارت کار کا کہنا تھا کہ ''اس پیش رفت کے لیے امریکہ شکر گزار ہے اور خطے میں استحکام کے لیے ان کلیدی تعلقات کو وسیع کرنے پر زور دیتا ہے۔ امریکہ سعودی عرب اور عراق کے درمیان تعاون جاری رکھنے میں مدد دینے کے لیے تیار ہے، اور ہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں''۔
سلمان نے کہا کہ ''ہمارے خطے کو شدت پسندی، دہشت گردی اس ساتھ ہی ہمارے ملکوں میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں کے شدید چیلنج درپیش ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس طرف دھیان دیں۔ ہم اپنے برادر ملک، عراق کے اتحاد اور استحکام کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں''۔
عبادی نے دونوں برادر ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر خوشی کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ''ہم خواہشمند ہیں کہ ماضی کو بھلائیں۔ خطہ مزید تقسیم برداشت نہیں کرسکتا۔ دوسرے ملکوں کے اندرونی امور میں مداخلت بند کرنی چاہیئے''۔
سال 1990میں عراقی مطلق العنان صدام حسین کی جانب سے کویت کو فتح کرنے کے بعد، شیعہ اکثریت والے عراق اور سنی قیادت والے سعودی عرب کے مابین تعلقات میں کشیدگی آئی۔ لیکن، سعودی عرب نے ربع صدی بعد 2015ء میں بغداد میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا تھا، اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے گذشتہ فروری میں عراق کا دورہ کیا، جس سے قبل سرحدیں کھول دی گئی تھیں، اور دونوں دارالحکومتوں کے درمیان فضائی پروازیں بحال ہوگئی ہیں۔