امریکہ کے وزیرِ دفاع ریکس ٹلرسن نے اعتراف کیا ہے کہ ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے لیکن صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ اس معاہدے میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے۔
اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' سے گفتگو کرتے ہوئے ٹلرسن کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت 2015ء میں طے پانے والے معاہدے پر تیکنیکی اعتبار سے عمل پیرا رہی ہے لیکن ان کے بقول اس معاہدے میں کئی خامیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ایران کی جانب سے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ معاملہ کانگریس کو بھجوادیا تھا جس کے پاس اب اس معاملے کا فیصلے کرنے کے لیے 60 دن کا وقت ہے۔
معاہدے کی رو سے امریکی صدر ہر تین ماہ بعد کانگریس کو معاہدے پر ایران کی عمل درآمد سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے پابند ہیں۔
'سی این این' پر گفتگو میں امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کانگریس جوہری معاہدے میں موجود بہت سی خامیوں کو دور کرے اور ممکن ہے کہ اس مقصد کے لیے ایران کے ساتھ کوئی الگ معاہدہ کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی فوجی جارحیت سے لاحق خطرات اور مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی اس کی سرگرمیوں کے مقابلے کے لیے کوئی حکمتِ عملی وضع کرنا ضروری ہے۔
ریکس ٹلرسن نے کہا کہ جوہری معاہدے میں ایران کے بیلسٹک میزائل کے تجربات پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور اس کے جوہری پروگرام پر بھی مزید واضح اور سخت پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ معاہدے کا مقصد ایران کے جوہری عزائم کو موخر کرنا ہے اور اس سے لاحق حقیقی خطرات کا اس کے پاس کوئی علاج نہیں۔
ریکس ٹلرسن نے کہا کہ جب تک کانگریس اس بات کا فیصلہ کرے کہ آیا اسے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنا چاہئیں یا نہیں، امریکہ اور معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک کو اس معاہدے پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے کام کرتے رہنا چاہیے۔
دریں اثنا ایران کے وزیرِ خارجہ اور جوہری معاہدے پر عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ایرانی وفد کے سربراہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے کے ساتھ صدر ٹرمپ کے سلوک کو دیکھنے کے بعد اب کوئی امریکہ پر اعتبار نہیں کرے گا۔
امریکی ٹی وی 'سی بی ایس' کے پروگرام 'فیس دی نیشن' میں گفتگو کرتے ہوئے ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئندہ کسی بھی معاہدے کی مدت امریکی صدر کے دورِ اقتدار تک محدود ہوگی۔
خیال رہے کہ ایران کے ساتھ یہ معاہدے امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کی حکومت نے کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے سے قبل ہی اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ کہتے رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آکر اس معاہدے سے الگ ہوجائیں گے۔
معاہدے پر دستخط کرنے والی دیگر پانچوں عالمی طاقتوں – برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین – نے معاہدے پر ٹرمپ حکومت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے معاہدے سے منسلک رہنے کا اعلان کیا ہے۔