سلامتی کونسل کو شمالی کوریا کے خلاف اقدام کرنا ہوگا: ٹلرسن

امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، ریکس ٹِلرسن جمعے کے روز پہلی بار اقوام متحدہ پہنچے، جہاں اُنھوں نے سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس نشست میں شمالی کوریا کی جانب سے جوہری بم تشکیل دینے کے خدشات کو زیرِ غور لایا گیا۔ اُنھوں نے عالمی ادارے پر زور دیا کہ وہ اقدام کرے ’’قبل اِس کے کہ شمالی کوریا کوئی قدم اٹھائے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’شمالی کوریا کا جنوبی کوریا یا جاپان کے خلاف جوہری حملے کا خطرہ حقیقت ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے امریکہ پر حملے کی صلاحیت کا حصول محض وقت کا معاملہ ہو سکتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’درحقیقت شمالی کوریا اس بات کا بارہا دعویٰ کر چکا ہے کہ وہ ایسے حملے کی منصوبہ سازی کر رہا ہے۔ ایسے بیانئے کو ذہن میں رکھا جائے تو امریکہ خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا‘‘۔

ٹِلرسن نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی تعزیرات پر مکمل عمل درآمد کرائے اور شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کرے یا اس کے درجے میں کمی لائے۔

ٹلرسن نے 15 رُکنی کونسل کو بتایا کہ ’’شمالی کوریا ہر جوہری ہتھیار یا میزائل کا تجربہ کرکے شمال مشرقی ایشیا کو خدشات سے ہمکنار کر دیتا ہے، جس سے دنیا عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے اور معاملہ وسیع تر تنازع کے قریب پہنچ جاتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’جنوبی کوریا یا جاپان کے خلاف شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار کے استعمال کا خطرہ حقیقت ہے‘‘۔


چین کا مکالمے پر زور

چینی وزیر خارجہ وینگ یی نے جمعے کے روز کہا ہے کہ شمالی کوریا سے درپیش جوہری خطرے سے نبردآزما ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ کہ ’’مکالمہ اور مذاکرات‘‘ کی راہ اپنائی جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ لڑائی چھڑنے سے اجتناب کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کریں گے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے، وینگ نے جزیرہٴ کوریا میں تناؤ سے احتراز برتنے کا انتباہ دیا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ایک ’’فیصلہ کُن مرحلہ‘‘ ہے، اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس معاملے کا حل تلاش کرنے کے لیے آج ہی وزارتی اجلاس منعقد کیا جائے۔

وینگ کے بقول ’’چاہے کچھ بھی ہو، ہمیں دو بنیادی سمتوں پر پُرعزم رہنا ہوگا‘‘۔

وینگ نے کہا کہ ’’پہلی سمت یہ ہے کہ جزیرے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کیا جائے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری سمت یہ ہوگی کہ جزیرے پر امن اور استحکام کو سربلند کیا جائے، اور جزیرے میں افراتفری یا لڑائی چِھڑنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔

حالیہ ہفتوں کے دوران، ٹرمپ انتظامیہ نے اِس توقع کا اظہار کیا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے چین مزید کوشش کرنے پر تیار لگتا ہے۔

سلامتی کونسل کے اِس اجلاس سے دو روز قبل، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قانون سازوں کو وائٹ ہاؤس بلایا تھا، جس موقعے پر شمالی کوریا کی جانب سے درپیش خدشات پر خصوصی اور صیغہٴ راز پر مبنی بریفنگ دی گئیں، جن میں بڑھتے ہوئے تناؤ میں کمی لانے کے لیے اُن کی انتظامیہ کی جانب سے کوششوں کی تفصیل پیش کی گئی۔