پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے حکومت سے معاہدے کے بعد فیض آباد میں دھرنا ختم کر دیا ہے۔
ٹی ایل پی کی جانب سے فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف دارالحکومت اسلام کے مرکزی داخلی راستے فیض آباد پر اتوار سے دھرنا جاری تھا۔
پیر کی شب حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک چار نکاتی معاہدہ طے پایا ہے جس پر وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ، وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری، کمشنر اسلام آباد عامر احمد کے علاوہ ٹی ایل پی کے رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں۔
معاہدے کے تحت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے گا، فرانس میں پاکستان کا سفیر مقرر نہیں کیا جائے گا، فرانس کی تمام مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا اور ٹی ایل پی کے تمام کارکنان کو رہا کر دیا جائے گا۔
معاہدے کے بعد ٹی ایل پی کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے اعلان کیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے کا مطالبہ منظور ہو چکا ہے جس کے بعد انہوں نے دھرنا بھی ختم کرنے کا اعلان کیا۔
بعدازاں انتظامیہ نے ٹی ایل پی کے گرفتار کارکنوں کی فوری رہائی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ اتوار کو تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے راولپنڈی میں احتجاجی ریلی نکالی جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے مطابق 'تحفظ ناموسِ رسالت' کے نام سے یہ احتجاجی ریلی تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے اعلان پر فرانس کے میگزین میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت اور فرانس کے صدر کے اسلام سے متعلق بیان کے خلاف نکالی گئی۔
احتجاجی ریلی کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں اور کئی مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا۔ پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔
تاہم اتوار کو رات گئے تحریک لبیک کے کارکن رکاوٹوں کے باوجود فیض آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور دھرنا دے دیا۔
فیض آباد پہنچنے کے بعد مظاہرین نے اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے جب کہ فرانس سے پاکستانی سفیر کو واپس بلانے پر اصرار کیا۔
تحریک لبیک کے دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان آمدورفت شدید متاثر رہی جب کہ کئی علاقوں میں انتظامیہ کی جانب سے موبائل فون سروس بھی بند کی گئی۔
خیال رہے کہ 2017 کے آخر میں بھی تحریک لبیک نے ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں مجوزہ تبدیلیوں کے خلاف فیض آباد انٹرچینج کے مقام پر تین ہفتے تک دھرنا دیا تھا۔
اُس وقت مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کے باوجود ٹی ایل پی کا دھرنا جاری رہا۔
بعدازاں خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اُس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل فیض حمید سمیت مبینہ طور پر فوج کی ضمانت کے بعد دھرنا ختم ہوا تھا۔
دھرنے کے باعث شہریوں کو درپیش مشکلات سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور بعدازاں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دھرنے میں فوج کی مداخلت کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
دو ہزار سترہ کے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارتِ دفاع اور آرمی چیف کو ہدایت کی تھی کی وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں۔
فیصلے میں ایک فوجی افسر کی جانب سے مظاہرین میں رقوم تقسیم کرنے سے متعلق ویڈیو کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستانی فوج ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، تاہم سول حکومت کے ساتھ آئین کے تحت تعاون کرنے کی پابند ہے۔