بھارت کی اعلٰی عدالت نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے بارے میں ایک اپیل کی سماعت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے تین ججوں نے کہا کہ وہ اتراکھنڈ ریاست کی حکومت کو نوٹس بھیج رہے ہیں کہ سپریم کورٹ آئندہ ہفتے اس کیس کی سماعت کرے گی۔
پولیس کو دائر کی گئی ایک شکایت کے مطابق مذہبی لیڈروں نے اترا کھنڈ کے شمالی مقدس قصبے، ہریدوار میں ایک اجلاس میں ہندوؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف قتل عام کے لیے خود کو مسلحّ کر لیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے، لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
اتراکھنڈ ریاست پر وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی ہے جسے دوہزار چودہ میں اقتدار ملا اور دوہزار انیس میں وہ بھاری اکثریت سے دوبارہ منتخب ہو گئی، اس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے دور میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں بی جے پی کے لیڈر اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔
مسلمان بھارت کی ایک اعشاریہ چار ارب کی آبادی کا تقریباً 14 فیصد ہیں۔
بھارتی قانونی خبروں کے ایک آن لائن پورٹل 'بار اینڈ بنچ' کا کہنا ہے کہ یہ درخواست ایک خاتون ریٹائرڈ جج انجنا پرکاش نے داخل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو مذہبی لیڈروں کے اجتماع میں کی گئی تقریریں نہ صرف ہمارے ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ مبینہ طور پر لاکھوں مسلمانوں کی زندگی خطرے میں ہے۔
پچھلے ماہ بھارتی پولیس نے ایک ہندو مذہبی لیڈر کو گرفتار کیا تھا جس پر الزام تھا کہ اس نے بھارت کی آزادی کے لیڈر موہن داس گاندھی کے خلاف توہین آمیز تقریر کی تھی اور ان کے قتل کو سراہا تھا۔
نفرت انگیز تقریر کرنے والے کالی چرن مہاراج کو وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں گرفتار کیا گیا تھا جس پر الزام تھا کہ وہ مذہبی گروپوں کے درمیان نفرت کو ہوا دے رہا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، مہاراج کا کہنا تھا کہ گاندھی نے ملک کو تباہ کیا اور نتھو رام گودسے کو سلام جس نے انہیں مار ڈالا۔
اگر اس پر جرم ثابت ہو گیا تو اسے پانچ سال کی جیل ہو سکتی ہے۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)