رسائی کے لنکس

گاندھی اور اسلام مخالف ہندو رہنما کی گرفتاری بھارت میں موضوع بحث کیوں؟


بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں رائے پور کی پولیس نے مہاتما گاندھی اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز اور اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں ایک ہندو مذہبی رہنما کالی چرن مہاراج کو گرفتار کر لیا ہے۔

رائے پور کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پرشانت اگروال نے میڈیا کو بتایا کہ کالی چرن مدھیہ پردیش کے کھجوراہو سے 25 کلومیٹر دور باگیشور دھام کے مقام پر ایک کرائے کے مکان میں تھے۔ انہیں جمعرات کی صبح چار بجے گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے لیے 10 پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے دور دراز مقام پر قیام کر رکھا تھا۔ انہوں نے کھجوراہو کے ایک ہوٹل میں بکنگ کرائی تھی مگر وہاں ٹھیرنے کے بجائے وہاں سے دور قیام کرنے کو ترجیح دی۔

رائے پور کے سابق میئر پرمود دوبے کی شکایت پر تکرا پاڑہ پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

کالی چرن نے اتوار کو رائے پور میں منعقد ہونے والے مذہبی اجتماع میں گاندھی کے خلاف توہین آمیز باتیں کہی تھیں۔

انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بناتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ وہ سیاست کے ذریعے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ رائے پور مذہبی اجتماع سے چند روز قبل اتراکھنڈ کے ہری دوار میں بھی ایک مذہبی اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں مقررین نے ہندوؤں سے مبینہ طور پر مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی تھی۔

رپورٹس کے مطابق کالی چرن کی گرفتاری کے بعد ریاست مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی حکومتوں میں زبانی جنگ چھڑ گئی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے۔

مدھیہ پردیش کے وزیرِ داخلہ نروتم مشرا نے رائے پور پولیس کی کارروائی کی مذمت کی اور کہا کہ رائے پور کی پولیس کو انہیں نوٹس دے کر سمن کرنا چاہیے تھا۔

بھارت: ہندوؤں کا کریا کرم کرنے والے مسلمان رضا کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:37 0:00

خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کے مطابق چھتیس گڑھ کے وزیرِ اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے نروتم مشرا کے بیان پر سوال اٹھایا اور کہا کہ وہ بتائیں کہ وہ گاندھی کو برا بھلا کہنے والے شخص کی گرفتاری سے خوش ہیں یا رنجیدہ۔ انہوں نے کہا کہ چھتیس گڑھ کی پولیس نے اس گرفتاری میں کسی ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔

دریں اثنا ہری دوار میں مبینہ اشتعال انگیز تقریر کرنے والے ہندو رہنماؤں نے بدھ کو ہری دوار کے ایک تھانے میں نامعلوم مسلمان علما کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔

درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ مسلمان ہندوؤں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق اتراکھنڈ کے پولیس سربراہ اشوک کمار نے کہا کہ ہری دوار کے ایس پی کی رپورٹ کی بنیاد پر مذکورہ پولیس افسر کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے جہاں اس معاملے پر خاموشی اختیار کرنے اور کوئی کارروائی نہ کرنے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہیں وہ اپوزیشن رہنماؤں کی قدرے خاموشی پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت سیاسی اور انتخابی مصلحتوں کی وجہ سے ان اشتعال انگیزیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے لیکن اپوزیشن رہنما بھی تقریباً اسی طرح کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

’ہندوتوا کی سیاست نے اپوزیشن کو خاموش کرا دیا‘

سینئر تجزیہ کار ویریندر سینگر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہندوتوا کی سیاست کرنے والوں نے ملک کا ماحول خراب کر دیا ہے۔ انتہا پسند ہندو رہنماؤں کو سیاست میں ایک اہم مقام حاصل ہو گیا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس قسم کی تقریروں سے ہندوؤں کا ایک طبقہ خوش ہو گا۔ اسی لیے وہ ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔

خیال رہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی 'ہندوتوا' کو فروغ دینے کے الزامات مسترد کرتی رہی ہے۔

ان کے خیال میں بی جے پی ہندوتوا کی سیاست کے نام پر ہندوؤں کے ایک طبقے کو متحد کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور وہ ان لوگوں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال بھی کرتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بولنے سے کترا رہی ہیں۔

ویریندر سینگر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن کی خاموشی نے ان لوگوں کو مزید طاقت دے دی ہے اور ان لوگوں نے جارحانہ رویہ اختیار کر لیا ہے۔

ان کے خیال میں حالیہ برسوں میں اپوزیشن کی سیکولرازم کی سیاست کمزور ہوئی ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن کبھی نرم ہندوتوا کا مؤقف اختیار کرتی ہے اور کبھی وہ بھی مبینہ طور پر مذہب کے نام پر گمراہ کرنے کی سیاست کرنے لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چھتیس گڑھ کی حکومت نے جرات کا مظاہرہ کیا اور ایک شخص کو گرفتار کیا۔ لیکن انہیں معمولی دفعہ میں گرفتار کیا گیا ہے لہٰذا ان کو ضمانت مل جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ اگر وہ ان سادھوؤں کے حلاف بولیں گے تو انہیں ہندو مخالف قرار دے دیا جائے گا اور آئندہ مہینوں میں جو اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ان میں ان کو ہندوؤں کے ووٹ نہیں ملیں گے۔

ان کے خیال میں ان کا یہ ڈر بے بنیاد بھی نہیں ہے۔ تاہم ان کے مطابق اپوزیشن کا یہ رویہ درست نہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں اپنے نظریات سے انحراف کر لیں تو پھر بی جے پی اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سیکولر جماعتوں کی خاموشی نے ان عناصر کو تقویت فراہم کر دی ہے۔ اگر کانگریس اپنے اصولوں پر چلتی تو یہ صورتِ حال پیدا نہیں ہوتی۔

ان کے خیال میں اپوزیشن لیڈروں نے ان تقریروں کی مذمت تو کی ہے لیکن وہ کھل کر نہیں بول رہے ہیں۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام کی اکثریت اس قسم کی سیاست کی مخالف ہے اور وہ بھارت کو ایک سیکولر جمہوری ملک دیکھنا چاہتی ہے ہندو اسٹیٹ نہیں۔

’مسلمان ملک میں امن و امان چاہتے ہیں‘

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے مسلمان چاہتے ہیں کہ اس ملک میں امن و امان رہے۔

اُن کے بقول انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اس قسم کی گفتگو کرنے والے اس ملک کو ہندو اسٹیٹ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مسلمان چاہتے ہیں کہ یہ ملک ایک سیکولر جمہوری ملک بنا رہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر مسلم جماعتیں اور تنظیمیں بھی اپنی جانب سے بیانات دے رہی ہیں۔ لیکن چونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں تشدد برپا ہو اس لیے انہوں نے مسلمانوں کو کوئی کال نہیں دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمان اور ان کی تنظیمیں خوف زدہ نہیں ہیں۔

’یہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے‘

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جو لوگ اشتعال انگیز تقریریں کر رہے ہیں وہ دراصل مسلمانوں کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو ملک کے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا موقع ملے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان اسے امن و امان کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ہندو رہنماؤں کے بیانات مسلمانوں کے خلاف تو ہیں لیکن وہ ملک کے آئین کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ وہ حکومت کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔

ان کے مطابق مسلم تنظیموں کی جانب سے حکومت کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جماعتِ اسلامی ہند نے بھی اس سلسلے میں ایک بیان میں وزیرِ اعظم سے کارروائی کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آ رہا۔ مرکز کو چاہیے کہ وہ اسٹیٹ کو ہدایت دے کہ جو لوگ آئین و قانون کو چیلنج کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو۔

بالی وڈ اداکار نصیر الدین شاہ بھی بول پڑے

بالی وڈ اداکار نصیر الدین شاہ نے ایک میڈیا ادارے ’دی وائر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کر رہے ہیں وہ دراصل اس ملک میں خانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن 20 کروڑ مسلمان کہیں جائیں گے نہیں وہ ان طاقتوں کے خلاف لڑیں گے۔

یاد رہے کہ کانگریس کے سینئر رہنماؤں راہول گاندھی، پرینکا گاندھی، پی چدمبرم، سچن پائلٹ، ترنمول کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے متعدد رہنماؤں نے ہری دوار اور رائے پور میں کی جانے والی مبینہ اشتعال انگیز تقریروں کی مذمت کی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے کوئی طاقت ور آواز تاحال نہیں اٹھی۔

دوسری جانب بھارتی حکومت کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور جہاں بھی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، ریاستی قانون حرکت میں آتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG