سعودی عرب کے علماٴ پر مشتمل چوٹی کی کونسل، جسے ملک میں فتاویٰ جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے یا جو شریعہ سے متعلق قانونی رائے زنی کی مجاز ہے، بدھ کے روز اعلان کیا کہ شریعت کی رو سے ’دہشت گردی ایک سنگین جرم‘ ہے، جس کے مرتکب لوگوں کو سخت ترین سزا دے کر، ایک مثال بنایا جانا چاہیئے۔
اِس بیان سے کچھ ہی روز قبل، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک جدہ میں ہونے والے ایک اجلاس میں یہ عہد کرچکے ہیں کہ وہ شدت پسند نظرئے سے نمٹنے کے اقدام کریں گے۔ دراصل مذہب کی سخت گیر تاویل اور داعش کے خلاف اب تک سعودی عرب کے علماٴ کی طرف سے سامنے آنا والا یہ بیان سب سے زیادہ مفصل حیثیت کا حامل ہے۔
سرکاری ابلاغ عامہ پر جاری ہونے والے اِس بیان میں، علماٴ نے اُن مخصوص تعزیرات کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایسی سزائیں دی جانی چاہئیں جن سے لوگوں میں ایسا عمل کرنے سے ڈر پیدا ہو۔ سعودی عرب میں سزائے موت پر عمل کیا جاتا ہے، اور سنگین جرائم کی صورت میں، چوک پر سر قلم کیے جانے کی سزا دی جاتی ہے۔
اِس بیان پر کونسل کے سارے 21 ارکان کے دستخط موجود ہیں اور اس میں قرآن حکیم اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث سے حوالے دیے گئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندی کی مالی اعانت کرنا یا نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف راغب کرنا ممنوع عمل ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو دہشت گردی کو جائز قرار دینے کے بارے میں رائے دیں یا فتویٰ جاری کریں، اُنھیں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی؛ اور یہ کہ ایسا کرنا ’شیطان کی تعبیداری‘ کے مترادف فعل ہے۔
سعودی عرب امریکہ کی قیادت میں کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں شریک ہے، جن کا مقصد عراق اور شام میں داعش کے شدت پسند گروپ سے نمٹنا ہے؛ جب کہ وہ القاعدہ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
سعودی عرب میں شریعہ کا قانون بنیادی قانونی نظام کا درجہ رکھتا ہے، جس میں وہابی سنی مسلمان مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے عالم دین اہمیت کے حامل اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اپنے عام خطابات میں، ملک کے مفتی اعظم، جنھیں سرکاری طور پر سینئر علما کونسل کے سربراہ کا درجہ حاصل ہے، پہلے ہی داعش کے شدت پسندوں اور القاعدہ کو اسلام کا ’اولین دشمن‘ قرار دے چکے ہیں۔
مفتی، شیخ عبدالعزیز الشیخ نے 2007ء میں کہا تھا کہ شریعہ کی رو سے دہشت گردوں کو ’حد الحرابہ‘ کی سخت ترین سزا دی جانی چاہیئے، جس میں مجرم کو چوراہے پر لٹکایا جاتا ہے، تاکہ لوگ ایسے قبیہ عمل سے دور بھاگیں۔